امریکہ کی جانب سے بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے بڑھتے واقعات پر بیان کے بعد بھارت نے بھی امریکہ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کی ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کو واشنگٹن ڈی سی میں بھارت کے وزرائے خارجہ اور دفاع کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ امریکہ کو بھارت میں بعض ریاستی حکومتوں، پولیس اہل کاروں اور جیل انتظامیہ کی انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزی سمیت دیگر امور پر تشویش ہے اور امریکہ ان واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ بھارت سے اس سلسلے میں تبادلہ خیال کرتا رہتا ہے۔
اس نیوز کانفرنس میں امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن اور بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ بھی موجود تھے۔ تاہم ان دونوں رہنماوں نے بلنکن کے بیان پر کوئی فوری ردِ عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ دونوں وزرا بھارت اور امریکہ کے درمیان ٹو پلس ٹو مذاکرات کے سلسلے میں اس وقت واشنگٹن میں تھے۔
جوابی بیان
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق جے شنکر نے کہا ہے کہ بھارت کو بھی امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر تشویش ہے۔
رپورٹ کے مطابق جب جے شنکر سے اینٹنی بلنکن کے بیان سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ہمارے بارے میں رائے رکھنے کا حق ہے۔ لیکن ہمیں بھی یکساں طور پر ان کی رائے پر اپنی رائے قائم کرنے کا حق ہے۔ ان کے بقول ہم بھی امریکہ سمیت دیگر ملکوں میں انسانی حقوق کے سلسلے میں رائے رکھتے ہیں۔
ایس جے شنکر نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ بھارت اور امریکہ کے وزرائے دفاع اور وزرائے خارجہ کے درمیان ٹو پلس ٹو مذاکرات میں انسانی حقوق کا معاملہ ایجنڈے میں نہیں تھا اور اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جب بھی اس سلسلے میں گفتگو ہو گی تو نئی دہلی بھی اس پر بات کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اینٹنی بلنکن جب بھارت آئے تھے تب انسانی حقوق کے معاملے پر گفتگو ہوئی تھی۔ اگر آپ اس کے بعد کی پریس بریفنگ کو دیکھیں تو ہم نے اس معاملے پر کھل کر تبادلۂ خیال کیا تھا اور ہمیں جو کہنا تھا وہ کہا تھا۔
ان کے بقول امریکہ میں جب بھی انسانی حقوق اور خاص طور پر بھارتی برادری کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم اس معاملے کو اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے منگل کو نیویارک میں دو سکھ افراد پر حملے اور لوٹ مار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی کل ہی ایسا ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ اس سے چند روز قبل نیویارک میں ایک معمر سکھ پر بھی حملہ ہوا تھا۔
’داخلی مجبوریاں‘
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اور امریکی کانگریس میں فل برائٹ فیلو کی حیثیت سے کام کرنے والے کے وی پرساد کے مطابق اینٹنی بلنکن اور اس سے قبل نئی دہلی کے دورے پر آئے امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر دلیپ سنگھ کے بیانات امریکہ کی داخلی سیاست کی مجبوریوں کا نتیجہ ہیں۔
ان کے مطابق اس سے قبل امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر دلیپ سنگھ نے روس اور یوکرین کے تعلق سے بہت سخت بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر چین نے ایل اے سی پر پھر دراندازی کی تو روس بچانے نہیں آئے گا۔
دلیپ سنگھ نے روس سے خام تیل خریدنے کے بھارت کے فیصلے کے تناظر میں کہا تھا کہ اگر کسی ملک نے روس کے خلاف امریکی پابندیوں کو بے اثر کرنے کی کوشش کی تو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین روس سے جتنا زیادہ فائدہ اٹھائے گا بھارت کے لیے وہ اتنا ہی کم سازگار ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات کوئی تسلیم کرے گا کہ اگر چین نے دوبارہ ایل اے سی کی خلاف ورزی کی تو روس بھارت کے دفاع میں آئے گا۔
وی پرساد کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق امریکہ کے بیان کا مقصد روس اور یوکرین کے سلسلے میں بھارت پر دباؤ بڑھانا بھی ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وی پرساد کا کہنا تھا کہ بھارت کا شروع ہی سے یہ مؤقف رہا ہے کہ انسانی حقوق اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس میں کسی کو مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
ان کے مطابق اینٹنی بلنکن نے امریکہ کی داخلی سیاست کی وجہ سے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات اٹھائی ہے ۔
انہوں نے جے شنکر کے جوابی بیان کو بھی بھارت کی داخلی سیاست کا نتیجہ قرار دیا۔ان کے مطابق جے شنکر نے ان کے بیان کا جواب دینا ضروری سمجھا کیوں کہ یہاں حکومت پر یہ دباؤ پڑ رہا تھا کہ بھارت کو امریکہ کے اس الزام کا جواب دینا چاہیے۔
دلیپ سنگھ کے بیان سے متعلق کے وی پرساد کا کہنا ہے کہ یوکرین پر حملے کے خلاف روس پر پابندیاں لگوانے میں دلیپ سنگھ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اس لیے ان کی واپسی پر امریکی کانگریس میں یہ سوال کیا جا سکتا تھا کہ انہوں نے روس اور یوکرین کے سلسلے میں بھارت میں کیا کام کیا۔
یاد رہے کہ دلیپ سنگھ کے دورے کے بعد وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے بھارت میں بامعنی مذاکرات کیے ہیں۔
دوسرے بہت سے تجزیہ کاروں کی طرح کے وی پرساد بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ روس اور یوکرین کے سلسلے میں بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ بھارت بھی اس معاملے میں وہی پالیسی اختیار کرے جو امریکہ کی ہے۔ جب کہ بھارت نے اپنے قومی مفادات کے تحت پالیسی وضع کی ہے اور ہر ملک یہی کرتا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق محکمۂ خارجہ کی رپورٹ
دریں اثنا امریکہ کے محکمہ خارجہ نے انسانی حقوق کے سلسلے میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بد عنوانیوں کو روکنے کی بھارتی حکومت کی کوشش کے باوجود ہر سطح پر حکومت کے اہل کاروں کے غلط رویوں پر جواب دہی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ذمے داران کو سزا نہیں ہو پاتی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انفرادی معاملات میں تحقیقات اور عدالتی کارروائی تو ہوتی ہے لیکن فیصلوں کے نفاذ میں سست روی، تربیت یافتہ پولیس اہل کاروں کی کمی اور زیادہ بوجھ اور کم وسائل والے عدالتی نظام کی وجہ سے کم ہی کیسز میں سزائیں ہو پاتی ہیں۔کے وی پرساد اسے بھی اندرونی سیاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
اس رپورٹ میں بھی بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔اس سے قبل مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے بھی بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کی تھی اور بھارت کو تشویش والے ملکوں کے زمرے میں رکھنے کی سفارش بھی کی تھی۔
’یہ معمول کے بیانات ہیں‘
کے وی پرساد کے مطابق دلیپ سنگھ کا بیان ہو یا بلنکن کا، سفارت کاری میں ایسے بیانات معمول کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ وقتی بیانات ہوتے ہیں اور ان کا باہمی رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہت گہرے، مستحکم اور اور اسٹریٹجک ہیں۔ دونوں ملکوں میں عوام سے عوام کے درمیان بھی بہت گہرے رشتے ہیں۔
انہو ں نے کہا کہ اس وقت امریکہ میں 40 لاکھ بھارتی باشندے یا بھارتی نژاد ہیں جو مختلف کاروباری شعبوں سے منسلک ہیں اور کئی اہم عہدوں پر بھی کام کررہے ہیں۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم ہیں اور وہاں بھارتی برادری یا بھارتی امریکی برادری ایک بہت مضبوط آواز کی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان جامع عالمی اسٹریٹجک شراکت داری ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں باہمی رشتے بہت آگے تک جا چکے ہیں۔ لہٰذا ان کے خیال میں ایسے بیانات سے باہمی رشتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔