امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
بلنکن نے اپنے بیان میں بھارت میں بعض ریاستی حکومتوں، پولیس اہل کاروں اور جیل انتظامیہ کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا لیکن انہوں نے اس کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے اپنے شراکت داروں کے ساتھ ان اقدار (انسانی حقوق) پر بات کرتے رہتے ہیں۔
بھارت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق امریکی حکومت کے کسی بڑے عہدے دار کی جانب سے ایسا بیان کم ہی سامنے آتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ نے یہ بیان ایک ایسی مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران دیا ہےجس میں ان کے ساتھ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اوربھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی موجود تھے۔ تاہم بلنکن کے بعد میڈیا سے خطاب کرنے والے دونوں بھارتی وزرا نے اس بیان پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ۔
ایس جے شنکر اور راج ناتھ سنگھ امریکہ کے ساتھ ٹو پلس ٹو مذاکرات کے سلسلے میں واشنگٹن میں ہیں۔
قبل ازیں امریکی کانگریس کی ایک خاتون رکن الہان عمر نے اپنے ایک بیان میں انسانی حقوق سے متعلق بھارت میں نریندر مودی حکومت پر تنقید کرنے میں امریکی حکومت کی مبینہ جھجک پر سوال اٹھایا تھا۔
بلنکن کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب بھارت میں ہندو مت کے مطابق نئے سال کے آغاز اور مذہبی تہوار رام نومی کے دوران آٹھ ریاستوں میں مذہبی منافرت اور تصادم کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔
ان واقعات سے قبل بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر ایک مہم چلائی جا رہی ہے جس میں تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے بعد لاؤڈ اسپیکر سے اذان اور حلال گوشت کی فروخت پر پابندی جیسے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سخت گیر عناصر مسلم دکانداروں اور ٹیکسی ڈرائیورز کے بائیکاٹ کی اپیلیں بھی کر رہے ہیں۔
اس سے قبل اپریل 2021 میں امریکی وزارتِ خارجہ نے سال 2020 میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ جاری کی تھی اور اس حوالے سے بھارت پر تنقید کی تھی۔ جب کہ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انسانی حقوق کی مبینہ پامالی کی وجہ سے بھارت کو تشویش والے ملکوں کے زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
بھارت ماضی میں دوسرے ملکوں کی حکومتوں اور انسانی حقوق کے گروپس کی جانب سے اس قسم کی تنقید کو مسترد کرتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری عمل اور سرگرم ادارے موجود ہیں اور ملک کے آئین نے تمام طبقات کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے۔
بلنکن کے بیان کا خیرمقدم
انسانی حقوق کے کارکن اور ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر روی نائر نے اینٹنی بلنکن کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کے دونوں ایوانوں کانگریس اور سینیٹ میں ایک قانون ہے جسے ’گلوبل میگنسکی ہیومن رائٹس اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف شکایت کی جاسکتی ہے۔ اس شکایت پر امریکہ کی وزرات خارجہ ایسے لوگوں پر پابندی نافذ کر سکتی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ کے قانونی ادارے ’جسٹ سیکیورٹی ڈاٹ او آر جی ‘نے اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش ظاہر کی ہے اور خاص طور پر اترپردیش کے موجودہ اور سابق ڈائریکٹر جنرلز آف پولیس پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔
روی نائر کے مطابق اب اس کی تصدیق دنیا بھر میں ہو رہی ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال تشویش ناک ہے اور اگر دنیا نے اس پر نظر نہیں رکھی تو مسلمانوں کی نسل کشی کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں میں اتراکھنڈ کے مذہبی شہر ہری دوار میں سادھوؤں کے ایک اجلاس میں ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔
آٹھ ریاستوں میں تشدد
رپورٹس کے مطابق اتوار کو ملک کے مختلف علاقوں میں ہندو مت کے مطابق نئے سال کے نوراتری اور ہندو مذہبی مقدس ہستی رام کی پیدائش پر رام نومی کے تہواروں کے موقعے پر مذہبی منافرت اور پر تشدد واقعات کی نئی لہر سامنے آئی ہے۔
رام نومی کے سلسلے میں نکالے گئے جلوسوں کے دوران بھارت کی آٹھ ریاستوں گجرات، مدھیہ پردیش، کرناٹک، بہار، اترپردیش، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور گوا میں پرتشدد واقعات پیش آئے جن میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اس کے علاوہ رواں ماہ کے آغاز میں ریاست راجستھان کے ضلع کرولی میں نکالی گئی ایک موٹر سائیکل ریلی میں مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز ترانے بجائے گے۔ اس ریلی کے بعد ہونے والے تصاد م میں متعدد افراد زخمی ہوئے اور کرولی میں 12 اپریل تک کرفیو نافذ کردیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق بھارت کی مختلف ریاستوں میں مساجد کے سامنے ہنگامہ آرائی اور مسجد کے میناروں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ گجرات میں ایک معمر مسلم پھل فروش کے ٹھیلے پر حملہ کرنے کا واقعہ بھی سامنے آیا۔ پولیس نے اس سلسلے میں دائیں بازو کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مدھیہ پردیش کے شہر کھرگون میں رام نومی کے ایک جلوس کے دوران تشدد پھوٹ پڑا جس کے بعد متعدد مکانات نذر آتش کر دیے گئے اور پتھراؤ کی وجہ سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ ان پرتشدد واقعات کے بعد مدھیہ پردیش میں پیر کو ضلعی انتظامیہ نے مسلمانوں کی 29 دکانوں اور 16 مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا۔
حکومت کی جانب سے پہلے کہا گیا تھا کہ مسلمانوں نے جلوس پر پتھراؤ کیا اور تشدد برپا کیا اس لیے نقصان کے ازالے کے لیے ان کے مکانات اور دکانوں کو منہدم کیا گیا ہے۔ لیکن اب انتظامیہ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ عمارتیں ناجائز قبضے کی وجہ سے منہدم کی گئی ہیں۔
مکانات اور دکانیں گرانے کی اس کارروائی سے قبل مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ جن گھروں سے پتھراؤ کیا گیا ہے ان کو پتھروں کے ڈھیر میں بدل دیا جائے گا۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں نان ویج پکانے پر تنازع
قبل ازیں اتوار کے روز نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے کاویری ہاسٹل کے میس میں بھی گوشت پکانے پر تنازع کھڑا ہوگیا تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی طلبہ تنظیم اکھیل بھارتیہ ودیارتی پریشد (اے بی وی پی) اور بائیں بازو کی طلبہ تنطیم کے درمیان تصادم ہوا جس میں متعدد طلبہ زخمی ہو گئے تھے۔
اے بی وی پی کا الزام ہے کہ اتوار کو رام نومی کی مناسبت سے ہاسٹل میں پوجا کی جا رہی تھی جس کی بائیں بازو کے طلبہ نے مخالفت کی اور حملہ کیا۔
بائیں بازو کی تنظیم سے وابستہ طلبہ کا الزام ہے کہ اے بی وی پی نے میس میں گوشت پکانے کی مخالفت کی حالاں کہ اس روز نان ویج پکانے کی باری تھی۔ ان کا الزام ہے کہ اے بی وی پی کے طلبہ نے دوسرے طلبہ پر حملہ کیا اور کئی طلبہ کو زخمی کر دیا۔ ان کے بقول اس موقعے پر موجود پولیس خاموش رہی۔
اس واقعہ کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک بیان جاری کرکے بائیں بازو سے وابستہ طلبہ پر پوجا کی مخالفت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں ریاست کرناٹک میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کے بعد سے مسلمانوں کی مذہبی شناخت سے متعلق دیگر علامتوں اذان، نماز، حلال گوشت وغیرہ سے متعلق مختلف تنازعات سامنے آرہے ہیں اور حالیہ چند ہفتوں میں ان واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
’ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں پر حملوں کے خلاف آواز اٹھائیں‘
دہلی یونیورسٹی میں استاد پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں اقلیتوں پر حملوں کا جو سلسلہ چل رہا ہے ہندوؤں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے، یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
ان کے بقول ہندو مذہب کے خیرخواہ افراد بھی اس صورت حال سے پریشان ہیں کیوں کہ ہندو مذہب بنیادی طور پر ایک روادار اور تحمل پسند مذہب کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن ہندوتوا کے نام پر جو کارروائیاں کی جا رہی ہیں اس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس مذہب کے ماننے والوں کی شبیہ کٹر اور متعصب افراد کی بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہندوتو اکے نام پر حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ اس سے ملکی معیشت کو نقصان ہوگا۔
وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حلال سرٹیفکیٹ والی مصنوعات مسلم ملکوں اور یہاں تک کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی قابل قبول ہے۔ اگر حلال سرٹیفکیٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا، جیسا کہ شدت پسند ہندو مطالبہ کر رہے ہیں، تو بزنس کو نقصان پہنچے گا اور اس بزنس میں بیشتر ہندو ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حالیہ کچھ دنوں میں شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مہم میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول ہندوؤں کے مذہبی تہوار نوراتری کے دوران حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور دار الحکومت دہلی کے تین میں سے دو میونسپل کمشنرز نے گوشت کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔
’صورتِ حال ابتر ہوسکتی ہے‘
برطانیہ کے قانونی ادارے ’جسٹ سیکیورٹی ڈاٹ او آر جی ‘ نے 11 اپریل کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور متحرک میڈیا اور آزاد عدلیہ کا دعویٰ کرتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے جس پر عالمی برادری کی کم نظر گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور یہ واضح پیغام دے کہ ان واقعات کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
رپورٹ میں اترپردیش کی پولیس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے برسراقتدار آنے کے بعد 146 ماورائے عدالت قتل ہوئے ہیں۔
روی نائر کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں پر حکومت خاموش ہے۔ وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے اور اس پر ہمیں کوئی حیرت بھی نہیں ہے۔
ان کے بقول نریندر مودی کی حکومت سخت گیر ہندو قوم پرستانہ نظریات رکھنے والی ’ہندوتو وادی‘ حکومت ہے۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ کس طرح ہندوتو وادی طاقتیں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر حملے کر رہی ہیں۔
وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پولیس اقلیتوں اور مسلمانوں پر حملے کرنے والوں کو گرفتار کرے۔ لیکن ان کے بقول پولیس اگر کوئی کارروائی کرتی ہے تو صرف نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کر لیتی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت کو اپنی ذمہ داری نبھانا چاہیے ورنہ صورت حال اور ابتر ہو سکتی ہے۔