یوسف جمیل
بھارت کی بّری فوج کے سربراہ جنرل بِپِن راوت نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مُقابلوں میں بھارتی فوج کے ہونے والے جانی نقصان میں حالیہ اِضافے کے پس منظر میں بُدھ کو خبردار کیا تھا کہ اگر لوگ دهشت گردوں کے خلاف فوج کی کاررائیوں میں رخنہ انداز ہونے سے باز نہیں آتے ہیں تو اُن کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
انہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ مقامی آبادی عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کا رروائیوں کے دوران حفاظتی حصار توڑنے اور فوج کے محاصرے سے بچ کر بحفاظت محفوظ مقامات پر مُنتقل ہونے میں مدد دیتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے یہ رَوِش جاری رکھی اور وہ داعش اور پاکستان کے جھنڈے لہرانے سے باز نہ آئے تو ہم اُنہیں قوم دشمن عناصر قرار دے کر سخت کارروائی کریں گے۔
اُن کے اس بیان کو کھلی دھمکی قرار دیتے ہوئے حزبِ اختلاف اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں نے شديد رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
نیشنل کانفرنس نے، جو بھارتی کشمیر میں ایک طویل عرصے تک بر سرِ اقتدار رہی ہے، نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ناراض اور قومی دھارے سے الگ تھلگ کشمیری نوجوانوں کو فوج کے ذریعے دھمکی دلانے کی بجائے انہیں اپنانے کی کوشش کرے۔
معروف آزادی پسند لیڈر اور مذہبی راہنما میرواعظ محمد عمر فاروق نے جنرل راوت کے بیان کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بیان اُس سوچ کا عکاس ہے جس کے تحت بھارتی حکومت نے نہ صرف فوج کو کشمیر میں عام لوگوں کے قتلِ عام کا لائسنس فراہم کیا ہے بلکہ اس طرح کا بیان مُسلمہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی بھی صریحا" خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر طاقت اور فوجی دباؤ سے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جاسکتا تو یہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ میرواعظ عمر نے إلزام لگایا کہ بھارت طاقت کا بے جا استعمال کرکے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کررہا ہے۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس اور مارکس وادی کمیو نسٹ پارٹی نے بھی جنرل راوت کے بیان کی شديد نُکتہ چینی کی ہے اور اسے مایوس کُن اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد سیاسی مفادات کی تکمیل ہے۔ ان جماعتوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے بیانات سے کشمیری عوام اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی خلیج بڑھ جائے گی۔
آزاد ممبر اسمبلی اور علاقائی عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر شیخ عبدالرشید نے کہا کہ جنرل راوت کے بیان سے نئی دہلی کے اس دعوۓ کی قلعی کھل گئی ہے کہ کشمیری عوام اس کے اپنے ہیں۔
تاہم حکمران بی جے پی نے جنرل راوت کے بیان کا دِفاع کرتے ہوئے کانگریس اور نیشنل کانفرنس پر علیحدگی پسندوں کی بولی بولنے کا إلزام عائد کیا۔
بھارت کے وزیرِ دفاع منوہر پاریکر اور داخلی امور کے وزیرِ مملکت کِرن رجی جو نے کہا کہ فوج کے سربراہ نے بیان قومی مفاد میں دیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ وضاحت کی کہ تمام کشمیری دہشت گرد نہیں ہیں ۔
دریں اثنا مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں حکام نے اُن مقامات کے تین کِلو میٹر کے دائرے میں لوگوں کے جمع ہونے پر دو ماہ تک پابندی لگا دی ہے جہاں مسلح افواج اور عسکریت پسندوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہو۔