بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں بدھ کوپولیس حراست میں ایک نوجوان کی ہلاکت کے خلاف کئی شہروں میں عام ہڑتال اور مظاہرے ہوئے۔
چھبیس سالہ ناظم راشد کو اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کے سپاہیوں نے سنیچر کو سوپور سے گرفتار کیا تھا۔ ایس او جی نے نوجوان کے والد سے کہا تھا کہ چونکہ اُسے اُن مشتبہ عسکریت پسندوں کے ساتھ دیکھا گیا تھا جِنھوں نے چند روز پہلے علاقے کے ایک مزدور کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا، اِس لیے وہ اُسے پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے جارہے ہیں۔
لیکن، اگلے ہی دِن ناظم کی لاش لوٹا ئی گئی جِس پر اُس کے والد عبد الرشید شالہ اور اُن لوگوں کے مطابق جِنھوں نے اُسے آخری غسل دیا، تشدد کے واضح نشان تھے۔عہدے داروں نے اُس کی تردید کی ہے نہ تصدیق۔
تاہم، اُن کا کہنا ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ دیکھنے کے بعد ہی یہ بتلا سکتے ہیں کہ ناظم کی موت کیسے واقع ہوئی۔
صوبائی وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے یہ یقین دلایا ہے کہ قصور وار افراد کو عبرتناک سزا دِی جائے گی۔ علاقے کے بعض پولیس افسروں کو معطل کیا گیا ہے۔
واقعے کے خلاف سوپور اور ملحقہ علاقوں میں گذشتہ چار دِنوں نے مسلسل ہڑتال ہے۔
آزادی پسند لیڈر سید علی گیلانی کی اپیل پر مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی۔ سری نگر کے بعض علاقوں میں نوجوان ٹولیوں اور پولیس کے درمیان معمولی جھڑپیں بھی پیش آئیں۔
سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ اور کئی دوسرے لیڈر کئی دِن سے گھروں میں نظربند ہیں۔
پولیس نے بھارت نواز علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کی سُوپور جانے کی کوشش بھی ناکام بنادی۔