بھارت اپنے زیرانتظام کشمیر میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے سیاسی حل کے طور پر نئی دہلی وادی میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں کمی اور پہلے سے زیادہ تعداد میں پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس علاقے میں آنے کی اجازت دینے پر غور کر رہا ہے۔
بھارت کے سیکرٹری داخلہ جی کے پلائی نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر کے زیادہ آبادی والے علاقوں میں آئندہ 12ماہ کے دوران فوج کی تعداد کو25 فیصد تک کم کرنے کا جائزہ لے رہی ہے۔
”اگر مقامی پولیس کی موجودگی سے ہی معاملات چلائے جا سکتے ہیں تو یہ مثالی صورت حال ہوگی۔ اس طرح اعتماد سازی بھی ہوگی اور لوگ سیکورٹی فورسز کی ضرورت سے زیادہ موجودگی کے باعث ہراساں بھی نہیں ہوں گے ۔“
بھارتی عہدیدار نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے جب گذشتہ سال جون میں بھارتی کشمیر میں شروع ہونے والے بھارت مخالف پرتشدد مظاہرے حکومت کے اس وعدے کے بعد تھمے کہ مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا جائے گا۔ مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر اس وعدے پر عمل نہ ہوا تو دوبارہ تشدد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
کئی ماہ تک جاری رہنے والے مظاہروں میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان مظاہروں کو مسلم اکثریت والےعلاقے میں 1980ء کی دہائی میں سامنے آنے والی مسلح بغاوت کے بعد سے شدید ترین احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔
سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستانی کشمیریوں کو بھارتی کشمیر میں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے چھ ماہ کا داخلہ پرمٹ دینے پر بھی غور کر رہی ہے جس کے تحت وہ اس مدت کے دوران کئی بار کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان سفر کرسکیں گے۔ موجودہ سفری پرمٹ کی معیاد پندرہ دن ہوتی ہے۔
جی کے پلائی نے کہا کہ ”اگرعلاقے میں امن آ جائے، تشدد نہ ہو، لوگ مطمئین ہوں تو ہم بتدریج اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ فوج صرف سرحدوں پر دار اندازی کو روکنے کے لیے ہی موجود ہو“۔
دوسری طرف بھارتی کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے بھارتی عہدیدار کی پیش کش کو مسترد کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر سے فوج کی مکمل واپسی کو یقینی بنایا جائے جس کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ ہے۔ احتجاجی مظاہروں میں سرگرم کشمیری رہنما علی شاہ گیلانی نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت اپنی پیش کش کے ذریعے عالمی برادری کو فریب دینے کی کوشش کر رہا ہے۔