|
پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بھارتی قیدی سربجیت سنگھ پر حملہ کرنے والے ملزم عامر سرفراز تانبا پر حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
پیر کو لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران محسن نقوی سے جب سوال کیا گیا کہ کیا ایسے کوئی شواہد ملے ہیں کہ اس میں بھارت ملوث ہے؟ جس پر محسن نقوی کا کہنا تھا کہ "اس سے پہلے بھی جو دو چار واقعات ہوئے ہیں اس میں بھارت براہِ راست ملوث تھا۔"
ان کا کہنا تھا کہ پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔
ان کے بقول "ابھی تک پولیس کو شک ہے کہ اِس واقعے میں وہی (بھارت) ملوث ہے جو آپ کہہ رہے ہیں۔"
لیکن محسن نقوی کے بقول جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، اس بارے میں کچھ کہنا بہتر نہیں ہے۔ تاہم یہ حملے کا طریقۂ کار ماضی کے واقعات کی طرح کا ہی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بھارت قیدی سربجیت سنگھ پر 2013 میں کوٹ لکھپت جیل میں ساتھی قیدیوں نے حملہ کیا تھا جس سے وہ بعد ازاں ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حملے کا الزام عامر سرفراز عرف تانبا اور ایک اور قیدی مدثر پر لگایا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں عدالت نے ان دونوں افراد کو قتل کیس سے بری کر دیا تھا۔
پاکستانی حکام نے عامر سرفراز تانبا پر حملے کا مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ عامر تانبا کے نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ بعد ازاں پولیس ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سربجیت سنگھ پر مبینہ حملے میں ملوث شخص پر فائرنگ کی گئی تھی جس سے وہ زخمی ہوا تھا تاہم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ ہلاک ہو گیا۔
عامر تانبا پر حملے کا مقدمہ اُن کے بھائی جنید سرفراز کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ اسلام پورہ میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمے کے مطابق فائرنگ کے وقت عامر سرفراز گھر کے اوپر والے پورشن میں تھے۔ ان پر دو حملہ آوروں نے تین گولیاں فائر کیں۔ ایک حملہ آور نے ہیلمٹ جب کہ دوسرے نے ماسک پہنا ہوا تھا۔
جنید سرفراز کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے کے متن کے مطابق جنید نے پولیس ایمرجنسی مدد نمبر 15 پر کال کی جس پر پولیس موقع پر پہنچ گئی۔
ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ جنید سرفراز نے اپنے بھائی عامر سرفراز تانبا کو بذریعہ ایمبولینس اسپتال منتقل کیا۔
پولیس کے مطابق دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے عامر کے گھر میں گھس کر ان پر فائرنگ کی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ پولیس نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور فائرنگ کرنے والوں کی تلاش شروع کر دی۔
اعلیٰ پولیس حکام کے مطابق یہ ایک ہائی لیول کیس ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں۔ مختلف ایجنسیاں اس معاملے میں معاونت کر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس حکام نے کہا کہ عامر تانبا پر حملہ کرنے والوں کی ریکی پولیس کر رہی تھی۔ حملہ آوروں اور پولیس ٹیم کے جائے وقوع پر پہنچنے کے دورانیے میں چند سیکنڈز کا فرق تھا۔
پولیس حکام کے مطابق عامر تانبا پر جیسے ہی حملہ ہوا، پولیس کو مخبر کے ذریعے اطلاع مل چکی تھی۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے وائس آف امریکہ بتایا کہ جس جگہ عامر تانبا کا گھر ہے۔ اُس گلی کے ایک کونے سے حملہ آور بھاگ رہے تھے تو دوسرے کونے پر پولیس پہنچ چکی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کیس کی حساسیت کے باعث وفاقی حکومت اِس واقعے کو براہِ راست دیکھ رہی ہے اور کیس کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات جاری ہیں۔
حکام کے مطابق تحقیقات میں فرانزک ایجنسی سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ پولیس کو اہم شواہد مل چکے ہیں۔ لیکن کیس کی تفتیش سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔
اعلیٰ پولیس حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارون نے عامر تانبا کی لاش تحویل میں لے کر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
پولیس ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عامر عرف تانبا ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسپتال ذرائع کے مطابق عامر سرفراز کی موت خون زیادہ بہنے کی وجہ سے ہوئی۔ وائس آف امریکہ کو اسپتال ذرائع نے بتایا کہ عامر کو مجموعی طور پر چار گولیاں لگیں جن میں سے دو گولیاں سینے اور دو ٹانگوں میں لگیں۔
عامر تانبا کون تھا؟
عامر سرفراز تانبا پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے جیل میں بھارتی قیدی سربجیت سنگھ کو قتل کیا ہے۔ عامر تانبا لاہور کے علاقے اسلام پورہ کا رہائشی تھے۔ وہ ایک دوسرے مقدمے میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بھارتی قیدی سربجیت سنگھ کے ساتھ قید تھے۔
عامر تانبا اور ان کے ساتھ قید ایک شخص مدثر پر الزام تھا کہ انہوں نے سربجیت سنگھ پر دورانِ قید حملہ کیا جس سے وہ ہلاک ہو گئے تھے۔
تاہم سیشن کورٹ نے اس قتل کیس میں عامر تانبا اور مدثر کو بری کر دیا تھا۔ کیس میں عامر کے وکیل نے مؤقف اپنایا تھا کہ سربجیت سنگھ نے عامر پر پہلے حملہ کیا اور اپنے بچاؤ میں عامر نے جوابی حملہ کیا۔
وائس آف امریکہ نے عامر تانبا کے اہلِ علاقہ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اُنہوں نے اِس واقعے سے متعلق بات کرنے سے اجتناب کیا۔
سربجیت سنگھ کون تھا؟
سربجیت سنگھ کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 1990 میں فیصل آباد، لاہور اور دیگر علاقوں میں بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اِن دھماکوں کے نتیجے میں 14 پاکستانی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
ان دھماکوں کے بعد سربجیت سنگھ کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارت جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق دوران تفتیش سربجیت سنگھ نے ان بم حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا جس پر انسدادِ دہشت گردی عدالت نے انہیں 1991 میں موت کی سزا سنائی تھی۔ عدالتی فیصلے کو عدالتِ عالیہ لاہور اور عدالتِ عظمیٰ پاکستان نے بھی برقرار رکھا تھا۔
سربجیت سنگھ کو اپریل 2013 میں کوٹ لکھپت جیل میں ساتھی قیدیوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں علاج کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔
بعد ازاں سربجیت سنگھ کی لاش ان کی بہنوں کے حوالے کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ سربجیت سنگھ پر حملے کے بعد اس وقت کی بھارتی حکومت نے پاکستان سے اپیل کی تھی کہ وہ سربجیت سنگھ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کرنے پر غور کرے۔
سربجیت سنگھ کو پاکستان میں دہشت گردی کے جرم میں مئی 2008 میں پھانسی دی جانی تھی۔ لیکن حکومتِ پاکستان نے اس پھانسی پر عمل درآمد عارضی طور پر روک دیا تھا۔