رسائی کے لنکس

بھارت: نو سالہ قانونی لڑائی کے بعد سو میٹر اونچا ٹوین ٹاور زمین بوس


نئی دہلی کے علاقے نوئیڈا میں کئ منزلہ عمارت زمین بوس ہوتے ہوئے
نئی دہلی کے علاقے نوئیڈا میں کئ منزلہ عمارت زمین بوس ہوتے ہوئے

بھارت میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر اُس سپرٹیک ٹوین ٹاور (جڑواں ٹاور) کو منہدم کر دیا گیا جس کی تعمیر کے سلسلے میں مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا الزام عاید کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں نو سال تک قانونی جنگ چلتی رہی۔

یہ ٹوین ٹاور دار الحکومت دہلی سے متصل اترپردیش کے نوئیڈا کے سیکٹر 93 میں واقع تھا۔ اس کی اونچائی قطب مینار سے بھی زیادہ یعنی 103 میٹر تھی۔ (قطب مینار کی اونچائی 37میٹر ہے)۔ اس میں تقریباً 850فلیٹس تھے۔ ’سیانے‘ نامی ایک ٹاور 29 منزلہ تھا جب کہ ’ایپکس‘ نامی دوسرا ٹاور 32 منزلہ تھا۔

اسے ’واٹر فال ایمپلوزن تکنیک‘ کے ذریعے اتوار 28 اگست کودن میں ڈھائی بجے محض نو سیکنڈ میں زمین بوس کر دیا گیا۔ یہ ٹوین ٹاور عملاً تاش کے پتوں کی مانند ڈھیر ہو گیا۔ بھارت میں پہلی بار اتنی اونچی عمارت منہدم کی گئی ہے۔


اسے ممبئی کی کمپنی ’ایڈیفائس انجینئرنگ‘ اور ساوتھ افریقہ کی کمپنی ’جیٹ‘ نے مشترکہ طور پر منہدم کیا ہے۔ ایڈیفائس انجینئرنگ کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر (سی ای او) اتکرش مہتہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اس کے انہدام کے لیے سات ماہ تک تیاری کی گئی۔ ایک ماہ منصوبہ بندی میں لگا اور چھ ماہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں لگے۔

انہدام کے لیے عمارت میں ہزاروں سوراخ کیے گئے اور ان میں 3700 کلو گرام دھماکہ خیز مادہ بھرا گیا۔ ٹوین ٹاور مکمل طور پر زمین بوس ہونے میں 13 سیکنڈ لگے۔ عمارت اوپر سے نیچے کی جانب گری۔ نو میٹر کی دوری پر واقع سب سے قریبی رہائشی سوسائٹی ایمیرالڈ اور دوسری رہائشی عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ البتہ ایک سوسائٹی کی باونڈری وال میں دراڑیں پڑ گئیں۔

انہدام کے نتیجے میں 80 ہزار ٹن ملبہ نیچے گرا ہے۔ جس میں سے 50 ہزار ٹن ٹاور کے بیسمنٹ میں کھپ جائے گا۔ جب کہ 30 ہزار ٹن ملبہ وہاں سے ہٹایا جائے گا اور اس کا استعمال دیگر عمارتوں کی تعمیر میں ہوگا۔

انہدام کی صبح کو سات بجے قرب و جوار کی رہائشی سوسائٹیوں کے تقریباً سات ہزار رہائشیوں سے ان کے فلیٹس خالی کرا لیے گئے تھے۔ ان کو شام میں پانچ بجے واپس آنے کا کہا گیا تھا۔ اگلے روز کچھ رہائشی اپنے فلیٹس میں واپس آئے۔ انہدام سے قبل ہزاروں کی تعداد میں پالتو جانوروں اور آوارہ کتوں او دیگر مویشیوں کو بھی ہٹا دیا گیا تھا۔


اس ٹاور کو تعمیراتی کمپنی ’سپرٹیک‘ نے ’ایمیرالڈ کورٹ پروجیکٹ‘کے تحت تعمیر کیا تھا۔ نوئیڈا اتھارٹی نے سپرٹیک کمپنی کو 2005 میں نو منزلہ 14 رہائشی ٹاورز تعمیر کرنے کی منظوری دی تھی۔ کمپنی نے 2009 میں پروجیکٹ پر نظرثانی کرکے سو میٹر اونچے دو مزید ٹاورز بنانے کا فیصلہ کیا۔

رہائشی سوسائٹی ’ایمیرالڈ کورٹ‘ کی ریزیڈنٹس ویلفیئر ایسو سی ایشن نے اس فیصلے کے خلاف 2012 میں الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور کمپنی پر مختلف قسم کی بدعنوانیوں اور تعمیراتی ضابطوں کی خلاف ورزی کا الزام عائدکیا۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے حقائق اور شواہد کی بنیاد پر ٹوین ٹاور کی تعمیر کو غیر قانونی پایا اور اسے منہدم کرنے کا فیصلہ سنایا۔ نوئیڈا اتھارٹی اور سپرٹیک کمپنی نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ان الزامات کو درست پانے کے بعد کہ اس کی تعمیر میں نہ تو عمارتوں کے درمیان کم سے کم فاصلے کا خیال رکھا گیا ہے، نہ ہی آتش زدگی کے کسی حادثے سے نمٹنے کے ضابطوں کی پابندی کی گئی ہے اور نہ ہی دیگر ضابطوں کا خیال رکھاگیا ہے، الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا۔

سپریم کورٹ نے اگست 2021 میں جڑواں ٹاور کو تین ماہ کے اندر منہدم کرنے کا حکم دیا۔ لیکن مختلف وجوہ سے اس کے انہدام میں تاخیر ہوتی رہی۔ بالآخر 28 اگست کو اسے منہدم کر دیا گیا۔

کمپنی کا پانچ سو کروڑ کا نقصان
عدالت نے سپرٹیک کمپنی کو ہدایت دی کہ وہ تمام فلیٹس مالکوں کو ادا کی گئی رقوم واپس کرے۔ اس نے انہدام پر آنے والی لاگت بھی کمپنی کے اوپر ڈالی۔ انہدام کے بعد کمپنی کے چیئرمین آر کے اروڑہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس انہدام سے کمپنی کو 500 کروڑ رپے کا نقصان ہوا ہے۔ ٹوین ٹاور کے ایک فلیٹ کی قیمت ایک سے تین کروڑ روپے کے درمیان تھی۔

انہدام سے قبل آس پاس کی عمارتیں ایک مخصوص کپڑے سے ڈھک دی گئی تھیں تاکہ ان میں گرد و غبار نہ جا سکے۔ لیکن اپنے فلیٹس میں لوٹنے والے بعض رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گھروں کے اندر بھی غبار پہنچ گیا ہے اور پورا علاقہ گرد و غبار سے پٹ گیا ہے۔ حالانکہ انہدام کے فوراً بعد فضا میں مشینوں کے ذریعے پانی کا چھڑکاو کیا گیا تھا۔

ماہرین ماحولیات کی تشویش
اب جب کہ 80 ہزار ٹن ملبہ نیچے آگیا ہے، ماحولیات اور صحت کے ماہرین تشویش میں مبتلا ہیں۔ انہدام کے بعد سے ہی سیکڑوں صفائی کارکنوں کے ذریعے علاقے کی صفائی کی جا رہی ہے لیکن ماہرین اس سے مطمئن نہیں ہیں۔

دحند میں لپٹی نئی دہلی کی عمارتیں ۔ اے پی فوٹو
دحند میں لپٹی نئی دہلی کی عمارتیں ۔ اے پی فوٹو

ان کا کہنا ہے کہ ملبے کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کم از کم تین ماہ لگیں گے۔ ٹرکوں پر لادنے، ان کو لے جانے اور دوسری جگہ گرانے کے دوران مسلسل غبار اڑے گا جو نہ صرف یہ کہ نوئیڈا اور دہلی کی ہوا کے معیار کو خراب کرے گا بلکہ اس سے صحت کے تعلق سے بھی کئی پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

ایک ماہر ماحولیات عبد الرشید اگوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دہلی ویسے بھی دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں سے ایک ہے۔ اب آلودگی میں مزید اضافہ ہوگا جس سے بہت سے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق اس کا حل بارش ہے۔ لیکن بارش کا موسم اپنے اختتام پر ہے۔

سینٹرل پولیوشن کنٹرول بیورو (سی پی سی بی) کے مطابق دہلی اور نوئیڈا کی ہوا کا معیار 26 اگست کو 111 اور 113 تھا جو کہ معتدل مانا جاتا ہے۔ لیکن انہدام کے بعد اس میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔

مختلف امراض کا خطرہ
عبد الرشید اگوان کہتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے پانی کا جو چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے وہ بھی مسائل پیدا کرے گا۔ اس پانی کے ساتھ ہوا میں تیر نے والا گرد و غبار نالیوں میں جائے گا۔ اس سے پینے کا پانی آلودہ ہوگا جو پیٹ، جگر اور گردے کی بیماریوں کا سبب بنے گا۔

ان کے مطابق سیمنٹ، ریت، اینٹ، اسٹیل، لوہا، لکڑی اور عمارت میں استعمال ہونے والی دیگر اشیا کے باریک اجزا اور دھماکہ خیز مادے کے اجزا مہینوں تک فضا میں رہیں گے جو صحت کے نقطہ نظر سے انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے بزرگوں، بچوں، خواتین اور کمزور افراد کی صحت کو نقصان پہنچے گا۔

وہ صحت کے دیگر ماہرین کی اس رائے سے متفق ہیں کہ آس پاس کے رہائشیوں کو فوری طور پر صحت سے متعلق جن مسائل کا سامنا ہوگا ان میں آنکھ، ناک اور منہ میں جلن اورسانس لینے میں دشواری قابل ذکر ہے۔ جب کہ آگے چل کر ٹی بی، کینسر، پیٹ میں السر اور دل کے امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو غیر قانونی ٹاور گرانے میں تو کامیابی مل گئی ہے لیکن اسس سے آگے چل کر دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف اس علاقےہی کی صفائی ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ملبے کو مناسب طریقے سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

لیکن منہدم شدہ ٹاور کے آس پاس کے رہائشیوں کو اس بات کی خوشی ہے کہ غیر قانونی عمارت کا صفایا ہو گیا۔ ان دونوں عمارتوں کی وجہ سے قریبی عمارتوں کے رہائشی دھوپ اور ہوا سے محروم ہو چکے تھے۔ اب وہ مطمئن ہیں کہ انھیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ماحول ملے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG