افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان، افغانستان اور برطانیہ کے سربراہان کا سہ فریقہ اجلاس پیر کو ہو رہا ہے۔
لیکن باضابطہ بات چیت سے قبل اتوار کی شب عشائیے پر تینوں ملکوں کے رہنماؤں نے بات چیت کی۔ عشائیے کی میزبانی ’چیکرز‘ کی رہائش گاہ میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کی، جس میں میزبان کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری شریک تھے۔
اس سے قبل سہ فریقی مذاکرات کے دو دور گذشتہ سال جولائی میں کابل اور ستمبر میں نیویارک میں ہو چکے ہیں۔
افغان صدر کے ترجمان اور خارجہ امور کے صدارتی مشیر، ایمل فیضی نے کہا ہے کہ تیسرے سہ فریقی مذاکرات کے آغاز سے قبل برطانوی حکام کی موجودگی میں افغانستان میں قیام امن کے عمل میں پاکستان کے حقیقی اور مؤثر کردار ادا کرنے پر پاکستان و افغانستان کی عسکری اور انٹیلی جنس قیادت کے درمیان نہایت اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
ساتھ ہی، ترجمان نےبتایا کہ دفاعی اور خارجہ امور کے حکام کے مابین ملاقاتوں میں بھی مسلح گروہوں کی افغانستان میں قیام امن کے عمل میں شرکت کرنے پر آمادہ کرنے میں پاکستان کی طرف سے ایک مؤثر اور عملی کردار ادا کرنے میں پیش رفت بھی زیرِ غور آئی۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں ایمل فیضی نے کہا کہ اِن ملاقاتوں میں افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی بھی شریک تھے۔
اِنہی مذاکرات کے تحت ستمبرمیں پاک افغان اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے تھے، جس کے تحت پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے عمل میں مدد دینے کے لیےگذشتہ دسمبر میں 20 طالبان راہنماؤں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کیا تھا۔ لیکن، میڈیا میں پاک افغان حکومتوں کے درمیان کچھ معاملات پر اتفاق نہ ہونے کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔
ایک سوال کے جواب میں ایمل فیضی نے کہا کہ سہ فریقی مذاکرات میں اِنہی نکات پر بات چیت ہوگی کہ کس طرح پاکستان افغانستان میں قیام امن کے عمل میں حقیقی اور عملی اقدامات کر سکتا ہے، جِس کے ذریعے افغانستان میں مسلح گروہ امن مذاکرات کے لیے راضی ہوجائیں۔
قیام امن کے عمل میں پیش رفت بڑھانے اور طالبان کے لیے قطر آفس کھولنے پر بھی پاک افغان قیادت بات چیت کرے گی۔
ایمل فیضی نے کہا کہ افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی سربراہی میں افغان حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے قیام امن کے عمل کی کامیابی کے لیے صرف افغانستان میں مسلح اور مخالف گروہوں کا مذاکرات پر آمادہ ہونا ہی کافی نہیں۔ بلکہ، افغانستان کے ہمسایہ ممالک، بالخصوص پاکستان اور بین الاقوامی برادری کو بھی اپنا کردار لازمی ادا کرنا ہوگا۔
صدر کرزئی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قطر میں طالبان آفس کھولنے پر افغان حکومت کو کئی اعتراضات ہیں جِن کا ذکر صدر کرزئی گذشتہ ماہ صدر اوباما سے امریکہ میں ہونے والی ملاقات میں کر چکے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ طالبان کو قطر آفس کے ذریعے ہی مذاکرات کی پیش کش کرنا ہوگی اور یہ اقدام اٹھانا اُن کے لیے اب لازمی ہے۔
ایمل فیضی کے مطابق، افغان حکومت کے لیے قطر آفس کو مذاکرات کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
اُن کے الفاظ میں افغان حکومت کی کئی ایک شرائط ہیں:
پہلی تو یہ کہ تمام افغان دھڑوں کو افغان آئین کے تحت ہی مذاکرات کرنا ہوں گے ؛ دوسری یہ کہ طالبان کے قطر آفس پر کسی غیر ملک کا اثر و رسوخ افغان حکومت کے لیے قابل قبول نہ ہوگا؛ اور تیسری شرط یہ کہ افغانستان کی نمائندہ افغان امن کونسل سے مذاکرات کرنے والے طالبان راہنماؤں کی چھان بین کا ایک نظام بھی مرتب کرنا ہوگا۔
لیکن باضابطہ بات چیت سے قبل اتوار کی شب عشائیے پر تینوں ملکوں کے رہنماؤں نے بات چیت کی۔ عشائیے کی میزبانی ’چیکرز‘ کی رہائش گاہ میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کی، جس میں میزبان کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری شریک تھے۔
اس سے قبل سہ فریقی مذاکرات کے دو دور گذشتہ سال جولائی میں کابل اور ستمبر میں نیویارک میں ہو چکے ہیں۔
افغان صدر کے ترجمان اور خارجہ امور کے صدارتی مشیر، ایمل فیضی نے کہا ہے کہ تیسرے سہ فریقی مذاکرات کے آغاز سے قبل برطانوی حکام کی موجودگی میں افغانستان میں قیام امن کے عمل میں پاکستان کے حقیقی اور مؤثر کردار ادا کرنے پر پاکستان و افغانستان کی عسکری اور انٹیلی جنس قیادت کے درمیان نہایت اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
ساتھ ہی، ترجمان نےبتایا کہ دفاعی اور خارجہ امور کے حکام کے مابین ملاقاتوں میں بھی مسلح گروہوں کی افغانستان میں قیام امن کے عمل میں شرکت کرنے پر آمادہ کرنے میں پاکستان کی طرف سے ایک مؤثر اور عملی کردار ادا کرنے میں پیش رفت بھی زیرِ غور آئی۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں ایمل فیضی نے کہا کہ اِن ملاقاتوں میں افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی بھی شریک تھے۔
اِنہی مذاکرات کے تحت ستمبرمیں پاک افغان اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے تھے، جس کے تحت پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے عمل میں مدد دینے کے لیےگذشتہ دسمبر میں 20 طالبان راہنماؤں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کیا تھا۔ لیکن، میڈیا میں پاک افغان حکومتوں کے درمیان کچھ معاملات پر اتفاق نہ ہونے کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔
ایک سوال کے جواب میں ایمل فیضی نے کہا کہ سہ فریقی مذاکرات میں اِنہی نکات پر بات چیت ہوگی کہ کس طرح پاکستان افغانستان میں قیام امن کے عمل میں حقیقی اور عملی اقدامات کر سکتا ہے، جِس کے ذریعے افغانستان میں مسلح گروہ امن مذاکرات کے لیے راضی ہوجائیں۔
قیام امن کے عمل میں پیش رفت بڑھانے اور طالبان کے لیے قطر آفس کھولنے پر بھی پاک افغان قیادت بات چیت کرے گی۔
ایمل فیضی نے کہا کہ افغان امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی کی سربراہی میں افغان حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے قیام امن کے عمل کی کامیابی کے لیے صرف افغانستان میں مسلح اور مخالف گروہوں کا مذاکرات پر آمادہ ہونا ہی کافی نہیں۔ بلکہ، افغانستان کے ہمسایہ ممالک، بالخصوص پاکستان اور بین الاقوامی برادری کو بھی اپنا کردار لازمی ادا کرنا ہوگا۔
صدر کرزئی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قطر میں طالبان آفس کھولنے پر افغان حکومت کو کئی اعتراضات ہیں جِن کا ذکر صدر کرزئی گذشتہ ماہ صدر اوباما سے امریکہ میں ہونے والی ملاقات میں کر چکے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ طالبان کو قطر آفس کے ذریعے ہی مذاکرات کی پیش کش کرنا ہوگی اور یہ اقدام اٹھانا اُن کے لیے اب لازمی ہے۔
ایمل فیضی کے مطابق، افغان حکومت کے لیے قطر آفس کو مذاکرات کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
اُن کے الفاظ میں افغان حکومت کی کئی ایک شرائط ہیں:
پہلی تو یہ کہ تمام افغان دھڑوں کو افغان آئین کے تحت ہی مذاکرات کرنا ہوں گے ؛ دوسری یہ کہ طالبان کے قطر آفس پر کسی غیر ملک کا اثر و رسوخ افغان حکومت کے لیے قابل قبول نہ ہوگا؛ اور تیسری شرط یہ کہ افغانستان کی نمائندہ افغان امن کونسل سے مذاکرات کرنے والے طالبان راہنماؤں کی چھان بین کا ایک نظام بھی مرتب کرنا ہوگا۔