سوات میں کبل کے مقام پر واقع انسدادِ دہشت گردی پولیس تھانے میں ہونے والے دھماکوں کے خلاف سوات قومی جرگہ کی اپیل پر مینگورہ شہر اور کبل قصبے میں منگل کو بڑے پیمانے پر مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔
واقعے کے خلاف کبل بازار مکمل طور پر بند رہا جب کہ مینگورہ کے نشاط چوک میں مظاہرے کے وقت شہر کے مختلف بازار اور مارکیٹیں لگ بھگ دو گھنٹوں تک بند رہیں۔
مینگورہ سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی عیسیٰ خان خیل نے بتایا کہ مظاہرو ں میں شریک افراد نے دہشت گردوں کے علاوہ سیکیورٹی اور انتظامی افسران کے خلاف نعرے بازی کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سوات میں 2005 اور 2009 والی صورتِ حال پیدا کی جا رہی ہے۔
سی ٹی ڈی تھانے میں منگل کی شب ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں نو اہلکاروں سمیت 17 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
وادی سوات کے کاروباری اور سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس واقعے کو دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ البتہ خیبر پختونخوا پولیس نے دھماکوں کو حادثہ قرار دیا ہے جب کہ ایک غیر مقبول عسکریت پسند گروپ کے کمانڈر نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں نو پولیس اہلکاروں سمیت ایک خاتون اور ایک بچی کے علاوہ چار دیگر سویلین افراد بھی شامل ہیں۔ یہ سویلین انسدادِ دہشت گردی پولیس تھانے میں زیر تفتیش افراد میں شامل تھے۔
صوبائی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے سیکریٹری داخلہ عابد مجیر اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ پر مشتمل دو رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
پولیس کی جانب سے ابتداً جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ واقعہ شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آیا ہے جب کہ تھانے کے مال خانہ میں موجود گولہ بارود کو آگ لگ لگنے سے دھماکے ہوئے۔
خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل اختر حیات گنڈہ پور کے مطابق سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکوں کو دہشت گرد گروپ کی جانب سے خودکش حملہ قرار دینا بالکل غلط ہے۔
ان کے بقول، تھانے پر کوئی حملہ نہیں ہوا ۔ تھانے میں موجود گولہ بارود کو آگ لگی اور اس میں 12 منٹ کے وقفے سے دو بڑے دھماکے ہوئے ۔
آئی جی پولیس کے مطابق تحقیقاتی ٹیمیں جائے وقوعہ پر موجود ہیں اور واقعے کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جارہا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی پولیس کے سربراہ خالد سہیل نے بھی سی ٹی ڈی تھانے پر حملے کی قیاس آرائیوں کی تردید کی ہے۔ ان کےبقول دھماکا غفلت یا کسی اور وجہ سے ہوا جبکہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے پولیس عہدیداروں کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حکام اب یہ ابہام پھیلا رہے ہیں کہ حملہ شارٹ سرکٹ تھا۔