جمعیت العلماءِ اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق کو خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع ان کے مدرسے 'جامعہ دارالعلوم حقانیہ' میں سپردِ خاک کردیا گیا ہے۔
مولانا سمیع الحق کو جمعے کی شام راولپنڈی میں نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں گھسنے کے بعد خنجر کے وار کرکے قتل کر دیا تھا۔
مولانا سمیع الحق کی میت کو جمعے کی شب راولپنڈی سے اکوڑہ خٹک لایا گیا تھا جہاں ہفتے کی سہ پہر ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
نمازِ جنازہ میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اور مولانا کے ہزاروں شاگردوں اور عقیدت مند شریک ہوئے۔
نمازِ جنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جس کی ادائیگی کے بعد انہیں مدرسے کے قبرستان میں ہی سپردِ خاک کردیا گیا۔
مولانا سمیع الحق کی عمر 80 برس سے زائد تھی لیکن وہ پیرانہ سالی کے باوجود تعلیم و تدریس اور سیاست میں متحرک تھے۔
قتل کی تحقیقات جاری
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں اور ان کے ان دو ملازمین کا بیان ریکارڈ کرلیا گیا ہے جو قتل سے قبل کچھ سامان لینے بازار گئے تھے۔
راولپنڈی پولیس نے مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کی مدعیت میں درج کرلیا ہے۔
قتل کے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مولانا سمیع الحق جمعے کی شام راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤن میں واقع اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے جب نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر ان پر چاقو کے وار کیے۔
پولیس کے مطابق مولانا کو جسم کے اوپری حصے پر 10 سے 12 زخم آئے۔
افغان طالبان کی مذمت
مولانا کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں افغان طالبان کے کئی سینئر رہنما بھی شامل ہیں۔
افغان طالبان نے اپنے ایک بیان میں مولانا کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا قتل پوری مسلم امت اور خاص طور پر پاکستان کے لیے بڑا نقصان ہے۔
بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قتل میں اسلام دشمن ملوث ہیں جو نہیں چاہتے تھے کہ مولانا جیسا بڑا شخص امت کو بیداری کا درس دے۔
دریں اثنا مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد پشاور پولیس نے جمعیت العلماءِ اسلام کے دوسرے دھڑے کے سربراہ اور متحدہ مجلسِ عمل کے صدر مولانا فضل الرحمان کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کا کہا ہے۔
پشاور پولیس نے جمعے کو ایک الرٹ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر حملے کا خدشہ ہے جس کے باعث وہ اپنی عوامی سرگرمیاں محدود کردیں اور سفر کرتے ہوئے احتیاط کریں۔