ایران کے سیکیورٹی اداروں نے ملک میں پر تشدد احتجاج میں امریکہ کے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) سے رابطے کے الزام میں آٹھ افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'ارنا' کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایران کے خفیہ اداروں کی وزارت کے مطابق جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سی آئی اے کی فنڈنگ سے کئی ممالک میں تربیت حاصل کی تھی۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس تربیت کے دوران کہا گیا تھا کہ ان افراد کو 'سیٹیزن جرنلسٹس' بننے کی تربیت دی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چھ افراد کو سیکیورٹی اداروں نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ ہنگامہ آرائی اور فسادات میں مصروف تھے جب کہ اسی وقت ان کو سی آئی اے کی جانب سے ہدایات بھی موصول ہو رہی تھیں۔ دیگر دو افراد تب گرفتار ہوئے جب وہ ایران سے معلومات باہر بھیج رہے تھے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق وزارت انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے انسدادِ جاسوسی ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ بعض افراد پرتشدد احتجاج کی معلومات جمع کر رہے تھے اور یہ معلومات ملک سے باہر بھیجنے کی بھی کوشش کی جا رہی تھی۔ ان افراد کو شناخت کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایران میں رواں ماہ کے وسط میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 فی صد تک اضافہ کیا گیا تھا۔
قیمتوں میں اضافے کا حکومتی اعلان سامنے آتے ہی ایران میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
قطر کے نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق نیو یارک کے انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران 143 افراد کی ہلاکت ہوئی جب کہ اس دوران بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ تاہم حکام نے کریک ڈاؤن کی تفصیلات پوشیدہ رکھی ہوئی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے افراد اور حراست میں لیے گئے لوگوں کے حوالے سے معلومات فوری طور پر جاری کرے جب کہ جن انسانی حقوق کی خلاف وزریاں ہوئی ہیں ان کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں۔
واضح رہے کہ ایران میں 15 نومبر کو پیٹرولیم مصنوعات کے اگلے روز 16 نومبر کو ملک بھر میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا جس کے باعث احتجاج کی معلومات فوری طور پر سامنے نہیں آ سکی تھیں۔
'اے ایف پی' کے مطابق ایرانی حکام نے صرف پانچ افراد کی ہلاکت اور 500 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی پے۔
دوسری جانب امریکہ نے کہا ہے کہ ایران میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کے حوالے سے ہزاروں پیغامات ملے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ٹیلی گرام میسجنگ ایپ کے ذریعے 20 ہزار پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں احتجاج سے متعلق تصاویر، ویڈیوز، نوٹس اور دیگر معلومات شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اب ان پابندیوں کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ جس میں پیٹرول کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کی لہر سامنے آئی ہے۔
مئی 2018 میں امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری مذکرات سے یک طرفہ طور ہر الگ ہو رہا ہے۔
ایران کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ احتجاج کے پیچھے دیگر ممالک کا ہاتھ ہے جن میں امریکہ، اسرائیل اور پیپلز مجاہدین آف ایران شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پیپلز مجاہدین آف ایران کو دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔
بدھ کو ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی ال خامنہ ای کا سرکاری ٹی وی پر پیغام سامنے آیا تھا کہ ایک بہت خطرناک منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔
آیت اللہ علی ال خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ایک بہت بڑی اور خطرناک سازش ناکام بنائی گئی ہے۔ اس سازش پر بہت رقم لگائی گئی تھی تاکہ تباہی اور لوگوں کی ہلاکتیں ہوں۔