ایک سال سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد، پہلی بار ایرانی عہدے دار اگلے ہفتے جنیوا میں چھہ عالمی طاقتوں کے نمائندوں کے ساتھ اپنے ملک کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں مذاکرات کے لیئے جمع ہوں گے ۔ اوباما انتظامیہ اب بھی ایران کے ساتھ مذاکرات کے عہد پر قائم ہے، لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس مسئلے میں سفارتی سطح پر کسی پیش رفت کے امکانات بہت کم ہیں۔
ان مذاکرات میں اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی شامل ہوں گے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی اعلیٰ عہدے دار، کیتھرین آسٹن ان مذاکرات کی قیادت کریں گی جب کہ سعید جلیلی ایران کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہوں گے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ مذاکرات میں واپسی کے لیئے ایران کی رضا مندی حوصلہ افزا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایران کے لیئے میز پر واپس آنے اور ان معاملات پر بات چیت کرنے کا موقع ہے جن کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو تشویش ہے ۔ ان میں سرِ فہرست اس کا نیوکلیئر پروگرام ہے۔
بعض سرکاری عہدے داروں کا خیال ہے کہ مذاکرات کے لیئے ایران کی رضا مندی اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ جون میں عائد کی جانے والی نئی اور زیادہ سخت پابندیاں ایران کی کمزور معیشت پر اثر انداز ہوئی ہیں۔امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار کہتے ہیں کہ ان پابندیوں سے توانائی کے شعبے میں ایران کو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا نقصان ہو چکا ہے اور ایران بین الاقوامی مالیاتی نظام سے عملی طور پر الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے ۔
صدر براک اوباما کے خصوصی اسسٹنٹ ، سفیر ڈینس راس کہتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ اب بھی یہی چاہتی ہے کہ ایران کے ساتھ اختلافات سفارتکاری کے ذریعے طے ہو جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ ایران سنجیدگی سے بات چیت کے لیئے تیار ہو۔ ہم تیار ہیں۔ ایران کو اپنے عوام کا احترام کر نا چاہیئے ۔ یہ وقت ہے کہ ایران اپنی خیر سگالی کا مظاہرہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو ہمیں بھی ایسا کرنے کے لیئے تیار پائے گا۔
مذاکرات کرنے والوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیا گذشتہ سال کی اس تجویز پر پھر غور کیا جائے کہ ایران کے میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر کے لیئے ایندھن حاصل کرنے میں امریکہ، روس اور فرانس اس کی مدد کریں۔ اس مجوزہ منصوبے کے تحت ایران کو اپنے کمتر درجے کے افژودہ شدہ یورینیم کا بڑا حصہ باہر بھیجنا پڑے گا اور اسکے عوض اسے کینسر کے مریضوں کے لیئے آئسو ٹوپس بنانے کے لیئے نیوکلیئر ایندھن ملے گا۔ یہ تجویز آگے نہ بڑھ سکی اور اب ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے ۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پُر امن مقاصد کے لیئے ہے لیکن امریکہ اور اس کے بعض اتحادی سمجھتے ہیں کہ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کی آڑ میں نیوکلیئر ہتھیار تیار کر رہا ہے ۔ ایران نے اس الزام سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ یورینیم کو نیوکلیئر ایندھن تیار کرنے کے لیئے افژودہ کر رہا ہے ۔
حال ہی میں وکی لیکس ویب سائٹ نے امریکی سفارت خانوں کے کچھ خفیہ کیبل جاری کیئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ملکوں میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ بعض عرب لیڈروں نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی طاقت کے استعمال سے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات کو تباہ کر دے۔ کریم سدجدپور جوکارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ ہیں کہتے ہیں کہ جو کیبل افشا کیئے گئے ہیں ان سے امریکہ اور ایران کے درمیان اعتماد کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کے کیبل افشا ہونے کے بعد، ایران میں امریکہ کے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات میں اور زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سی آئی اے کی بنائی ہوئی پالیسی کے مطابق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سفارتی ذرائع سے کسی مثبت نتیجے کا امکان برائے نام ہے۔
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے ان کاغذات کو امریکہ کی نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان خفیہ کاغذات کے افشاء ہونے سے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔
علی رضا نادر، رینڈکارپوریشن میں بین الاقوامی پالیسی کے تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران میں جو لوگ با اختیار ہیں، وہ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے کسی سمجھوتے کی حمایت نہیں کریں گے ۔
مسٹر احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ان کا ملک مذاکرات کے لیئے تیار ہے، لیکن وہ اپنے اس حق کے بارے میں کوئی رعایت نہیں دے گا کہ اسے نیوکلیئر پروگرام کا حق حاصل ہے ۔