درجنوں مملکتوں کے سربراہانِ سمیت، تقریباً 120 ملکوں کے نمائندے غیر جانبدار ملکوں کی تحریک کے سربراہ اجلاس کے سلسلے میں اگلے ہفتے تہران میں جمع ہوں گے۔ اس طرح, ایران کو بین الاقوامی سطح پر اپنی الگ تھلگ ہوجانے کی کیفیت کو ختم کرنے کا موقع ملے گا اور غیر وابستہ ملکوں کی تحریک دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گی۔
غیر وابستہ ملکوں کی تحریک سرد جنگ کے زمانے کی تنظیم ہے جس کا مقصد یہ تھا کہ جو ملک امریکہ یا سوویت یونین دونوں میں سے کسی کے ساتھ منسلک نہیں ہیں، وہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکیں۔ لیکن سنہ1950 کی دہائی میں اپنے قیام کے وقت کے بعد سے ہی، اس تنظیم میں ایسے ملک شامل تھے ، جو اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے ۔سنہ 1991 میں سوویت یونین کے زوال کے بعد سے، یہ گروپ اپنی شناخت اور اثر و رسوخ قائم رکھنے کی جدو جہد کرتا رہا ہے ۔
اب قیادت باری باری منتقل ہونے کے نظام کی بدولت ، ایک بار پھر دنیا کی نظریں اس گروپ کی طرف مبذول ہوئی ہیں۔
تہران میں یہ سربراہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایران کے نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے، اقوامِ متحدہ نے اس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ سربراہ کانفرنس میں بعض ایسےلیڈر بھی موجود ہوں گے جو ان پابندیوں پر عمل در آمد میں مدد دے رہےہیں جن کی وجہ سے ایران کی معیشت مفلوج ہو رہی ہے ۔
یہ تضاد اس تحریک کا خاصہ ہے ۔ یونیورسٹی آف جوہانسبرگ میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہنی ا سٹرڈم کہتے ہیں کہ جب رکن ممالک کی تعداد اتنی زیادہ ہو، تو ان میں اتفاقِ رائے شاذو نادر ہی ہوتا ہے ۔
ان کے الفاظ میں، مشترکہ دلچسپی کے معاملات میں، جیسے اقتصادی ترقی کے مسائل، بین الاقوامی امور میں ان کا نسبتاً کمزور موقف، اور مغربی ملکوں کے اثر و رسوخ کے خلاف ایک طرح کے بلاک کی تشکیل میں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ لہٰذا ان ملکوں کی کوئی مضبوط مشترکہ بنیاد تو نہیں ہے، لیکن پھر بھی کافی عرصے سے ان مسائل نے انہیں یکجا رکھا ہے ۔
اسٹرڈم کہتے ہیں کہ غیر جانبدار تحریک کے بہت سے ملکوں میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو ترقی دینے کے حق کے بارے میں، اور مغرب کی طرف اس کے سخت رویے کے سلسلے میں، کسی قدر ہمدردی موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایران اس میٹنگ کو پابندیوں کو نرم کرنے کے بارے میں حمایت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ تا ہم، انہیں یقین نہیں کہ ایران کو اس کوشش میں کامیابی حاصل ہو گی۔
اُن کےبقول، ایران چاہتا ہے کہ اس موقعے کو دنیا میں اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس میٹنگ کے نتیجے میں کچھ ملک کہیں کہ سلامتی کونسل کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیئے ۔ اس مرحلے پر، یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ لابی کتنی مضبوط ہوگی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ سربراہ کانفرنس میں ایران غیر جانبدار تحریک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا ۔ وہ چاہے گا کہ سلامتی کونسل کی بہت سے قراردادوں کی خلاف ورزی سے توجہ ہٹائی جائے ۔
سلامتی کونسل نے اقتصادی پابندیاں اس لیے عائد کی ہیں کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام، نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری کے لیے ہے ۔ ایران نے اس الزام سے انکار کیا ہے ۔کونسل چاہتی ہے کہ ایران یورنیم کو اس حد تک افژودہ کرنا بند کردے جو اسلحہ کی تیاری میں کام آ سکتا ہے ، اور بین الاقوامی معائنوں کی اجازت دے ۔
اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کی موجودگی سے پابندیوں کو ختم کرنے کی ایرانی کوششیں اور زیادہ پیچیدہ ہو جائیں گی۔ ایران چاہتا ہے کہ وہ اس میٹنگ میں موجود ہوں تا کہ میٹنگ کے وقار میں اضافہ ہو، لیکن امریکہ اور اسرائیل سمیت، بہت سے ملکوں نے کہا ہے کہ چونکہ وہ اس تنظیم کے سربراہ ہیں جس نے پابندیاں عائد کی ہیں، اس لیے انہیں میٹنگ میں نہیں جانا چاہیئے ۔
تا ہم، لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے دانا ایلن کہتے ہیں کہ مسٹربان کی موجودگی سے پابندیوں پر اور ان کے عائد کیے جانے کی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔
دانا کے الفاظ میں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایرانی قیادت سے اس بارے میں سخت لہجے میں بات کریں گے اور کہیں گے کہ انھوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔
لہٰذا، اب جب کہ لیڈرز تہران میں جمع ہو رہے ہیں، تجزیہ کار وں کی نظر اس پہلو پر ہوگی کہ کیا اس میٹنگ سے عالمی سفارت کاری میں ایران کی پوزیشن بہتر ہوگی ۔ لیکن دانا ایلن کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو بھی، ایران کو اپنے مسائل سے بہت کم وقت کے لیے نجات مل سکے گی ۔
دانا کے بقول، وہاں میٹنگ ہو رہی ہے اور لوگ وہاں پہنچ رہے ہیں۔ لہٰذا، یہ بات واضح ہے کہ وہ مکمل طور سے الگ تھلگ نہیں ہوئے ہیں ۔ یہ سمجھنا تو حماقت ہو گی کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا ۔ میری دلیل یہ ہے کہ ہمیں یہ غلطی بھی نہیں کرنی چاہیئے کہ اس میٹنگ کے اثرات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیں کیوں کہ میٹنگ ختم ہونے کے بعد، ایران کی صورت حال بڑی حد تک وہی ہو جائے گی جو میٹنگ سے پہلے تھی ۔
یہ سربراہ کانفرنس ایران کے رہبر ِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے تقریر سے شروع ہو گی ۔ عام طور سے وہ صرف اسلامی عہدے داروں سے ملتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ایران کے لیے یہ میٹنگ کتنی اہم ہے ۔ اگر سربراہ کانفرنس نہ ہوتی، تو بیشتر عالمی لیڈر ایران کے دورے پر نہ آتے، اور نہ اس کے ساتھ تجارت کے لیے آمادہ ہوتے۔
غیر وابستہ ملکوں کی تحریک سرد جنگ کے زمانے کی تنظیم ہے جس کا مقصد یہ تھا کہ جو ملک امریکہ یا سوویت یونین دونوں میں سے کسی کے ساتھ منسلک نہیں ہیں، وہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکیں۔ لیکن سنہ1950 کی دہائی میں اپنے قیام کے وقت کے بعد سے ہی، اس تنظیم میں ایسے ملک شامل تھے ، جو اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے ۔سنہ 1991 میں سوویت یونین کے زوال کے بعد سے، یہ گروپ اپنی شناخت اور اثر و رسوخ قائم رکھنے کی جدو جہد کرتا رہا ہے ۔
اب قیادت باری باری منتقل ہونے کے نظام کی بدولت ، ایک بار پھر دنیا کی نظریں اس گروپ کی طرف مبذول ہوئی ہیں۔
تہران میں یہ سربراہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایران کے نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے، اقوامِ متحدہ نے اس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ سربراہ کانفرنس میں بعض ایسےلیڈر بھی موجود ہوں گے جو ان پابندیوں پر عمل در آمد میں مدد دے رہےہیں جن کی وجہ سے ایران کی معیشت مفلوج ہو رہی ہے ۔
یہ تضاد اس تحریک کا خاصہ ہے ۔ یونیورسٹی آف جوہانسبرگ میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہنی ا سٹرڈم کہتے ہیں کہ جب رکن ممالک کی تعداد اتنی زیادہ ہو، تو ان میں اتفاقِ رائے شاذو نادر ہی ہوتا ہے ۔
ان کے الفاظ میں، مشترکہ دلچسپی کے معاملات میں، جیسے اقتصادی ترقی کے مسائل، بین الاقوامی امور میں ان کا نسبتاً کمزور موقف، اور مغربی ملکوں کے اثر و رسوخ کے خلاف ایک طرح کے بلاک کی تشکیل میں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ لہٰذا ان ملکوں کی کوئی مضبوط مشترکہ بنیاد تو نہیں ہے، لیکن پھر بھی کافی عرصے سے ان مسائل نے انہیں یکجا رکھا ہے ۔
اسٹرڈم کہتے ہیں کہ غیر جانبدار تحریک کے بہت سے ملکوں میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو ترقی دینے کے حق کے بارے میں، اور مغرب کی طرف اس کے سخت رویے کے سلسلے میں، کسی قدر ہمدردی موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایران اس میٹنگ کو پابندیوں کو نرم کرنے کے بارے میں حمایت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ تا ہم، انہیں یقین نہیں کہ ایران کو اس کوشش میں کامیابی حاصل ہو گی۔
اُن کےبقول، ایران چاہتا ہے کہ اس موقعے کو دنیا میں اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس میٹنگ کے نتیجے میں کچھ ملک کہیں کہ سلامتی کونسل کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیئے ۔ اس مرحلے پر، یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ لابی کتنی مضبوط ہوگی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا ہے کہ سربراہ کانفرنس میں ایران غیر جانبدار تحریک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا ۔ وہ چاہے گا کہ سلامتی کونسل کی بہت سے قراردادوں کی خلاف ورزی سے توجہ ہٹائی جائے ۔
سلامتی کونسل نے اقتصادی پابندیاں اس لیے عائد کی ہیں کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام، نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری کے لیے ہے ۔ ایران نے اس الزام سے انکار کیا ہے ۔کونسل چاہتی ہے کہ ایران یورنیم کو اس حد تک افژودہ کرنا بند کردے جو اسلحہ کی تیاری میں کام آ سکتا ہے ، اور بین الاقوامی معائنوں کی اجازت دے ۔
اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کی موجودگی سے پابندیوں کو ختم کرنے کی ایرانی کوششیں اور زیادہ پیچیدہ ہو جائیں گی۔ ایران چاہتا ہے کہ وہ اس میٹنگ میں موجود ہوں تا کہ میٹنگ کے وقار میں اضافہ ہو، لیکن امریکہ اور اسرائیل سمیت، بہت سے ملکوں نے کہا ہے کہ چونکہ وہ اس تنظیم کے سربراہ ہیں جس نے پابندیاں عائد کی ہیں، اس لیے انہیں میٹنگ میں نہیں جانا چاہیئے ۔
تا ہم، لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے دانا ایلن کہتے ہیں کہ مسٹربان کی موجودگی سے پابندیوں پر اور ان کے عائد کیے جانے کی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔
دانا کے الفاظ میں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایرانی قیادت سے اس بارے میں سخت لہجے میں بات کریں گے اور کہیں گے کہ انھوں نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔
لہٰذا، اب جب کہ لیڈرز تہران میں جمع ہو رہے ہیں، تجزیہ کار وں کی نظر اس پہلو پر ہوگی کہ کیا اس میٹنگ سے عالمی سفارت کاری میں ایران کی پوزیشن بہتر ہوگی ۔ لیکن دانا ایلن کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو بھی، ایران کو اپنے مسائل سے بہت کم وقت کے لیے نجات مل سکے گی ۔
دانا کے بقول، وہاں میٹنگ ہو رہی ہے اور لوگ وہاں پہنچ رہے ہیں۔ لہٰذا، یہ بات واضح ہے کہ وہ مکمل طور سے الگ تھلگ نہیں ہوئے ہیں ۔ یہ سمجھنا تو حماقت ہو گی کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا ۔ میری دلیل یہ ہے کہ ہمیں یہ غلطی بھی نہیں کرنی چاہیئے کہ اس میٹنگ کے اثرات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیں کیوں کہ میٹنگ ختم ہونے کے بعد، ایران کی صورت حال بڑی حد تک وہی ہو جائے گی جو میٹنگ سے پہلے تھی ۔
یہ سربراہ کانفرنس ایران کے رہبر ِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے تقریر سے شروع ہو گی ۔ عام طور سے وہ صرف اسلامی عہدے داروں سے ملتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ایران کے لیے یہ میٹنگ کتنی اہم ہے ۔ اگر سربراہ کانفرنس نہ ہوتی، تو بیشتر عالمی لیڈر ایران کے دورے پر نہ آتے، اور نہ اس کے ساتھ تجارت کے لیے آمادہ ہوتے۔