ایران میں قید ایک امریکی صحافی کو چار الزامات پر مقدمے کا سامنا ہے، جن میں جاسوسی کا الزام بھی شامل ہے۔
جیسن رضائیاں کی وکیل نے ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کو بتایا کہ اُنھیں ’اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے‘ اور ’دشمن ملکوں کی حکومتوں سے سازباز کرنے‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔
رضائیاں کی وکیل، لیلہ احسن نے کہا ہے کہ اُن کے مؤکل پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ’داخلی اور بیرونی پالیسی کے بارے میں اطلاعات‘ جمع کرنے اور ’اسے بدخواہ عزائم رکھنے والے‘ حلقوں کو فراہم کر رہے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کے اگزیکٹو ایڈیٹر، مارٹن بیرون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ الزامات ’مضحکہ خیز‘ ہیں، جن کی رو سے 10 سے 20 برس تک کی قید ہو سکتی ہے۔
بقول اُن کے، ’ایران کی عدالت کا یہ دعویٰ بے معنی اور مضحکہ خیز ہے، جس میں جیسن کے کام پر شک ظاہر کیا گیا ہے جو وہ ایک فری لانس رپورٹر اور بعدازاں واشنگٹن پوسٹ کے تہران کے نامہ نگار کے طور پر انجام دے رہے تھے، جسے جاسوسی بتایا جا رہا ہے، یا جس سے ایرانی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہو‘۔
بیرون نے بتایا کہ پیر کے دِن رضائیاں اور اُن کی وکیل کے درمیان پہلی قابل ذکر ملاقات ہوئی، جو 90 منٹ تک جاری رہی، اور جس میں ایک سرکاری مترجم بھی موجود تھا۔
انتالیس برس کے رضائیاں اور اُن کی بیوی، یگانے ’یگی‘ صالحی کو، جو خود بھی ایک صحافی ہیں، پچھلے سال جولائی میں گرفتار کیا گیا، جس سے قبل ایرانی سکیورٹی فورسز نے تہران میں اُن کے گھر پر چھاپہ مارا۔
صالحی کو رہا کیا گیا ہے۔ لیکن رضائیاں، جنھیں امریکہ اور ایران کی دوہری شہریت حاصل ہے، گذشتہ نو ماہ سے قید کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔