آئر لنیڈ کی حکومت نے اسقاط حمل کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ قانون سازی میں ترمیم ایک ایسے واقعہ کے بعد کی جارہی ہے جب آئرلینڈ کے ایک ہسپتال نے ایک بھارتی خاتون سویتا کے اسقاط سے انکار کر دیا تھا ،جس کے باعث اس کی موت واقع ہوئی ۔
ڈبلن حکومت نے گذشتہ روز اعلان کیاکہ، اسقاط حمل کو بعض ناگزیر حالات میں قانونی تصور کیا جائے گا جب اس کی وجہ سے ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو اور اسے بچانے کے لیے اسقاط ضروری ہو۔
اسقاط حمل اس صورت میں بھی قانونی ہو گا جب ماں کی ذہنی حالت خراب ہو اور وہ خود کشی کرنے پر آمادہ ہو۔
آئر لینڈ ایک کیتھولک ملک ہےاور کتھولک قوانین میں اسقاط حمل پر پابندی ہے۔
تاہم سات ہفتے قبل ایک بھارتی ڈینٹسٹ سویتا آئرلینڈ میں اس قانون کی وجہ سے اپنی زندگی سے محروم ہو گئی۔ سویتا کی موت کے بعد آئر لینڈ حکومت نے اسقاط حمل کو قانونی شکل دینے کا اعلان کیا ہے۔
31سالہ سویتا ہالاپنور کی موت گالوےیونیورسٹی ہسپتال میں جسم میں زہر پھیلنے سے ہوئی۔ وہ 17 ہفتے کے حمل سے تھی ۔سویتا کی موت سے قبل اس کا حمل ضائع ہو چکا تھا، مگر بچے کی سانس باقی تھی ، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث سویتا کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی، جس پر سویتا کےشوہر34 سالہ پراوین نے ڈاکٹر سے اسقاط حمل کے لیے کہا۔ جس پر انھیں بتایا گیا ،ایک کتھولک ملک ہونے کے ناطے یہاں ایسا کرنا خلاف قانون ہے۔
سویتا اور اس کے شوہر کے لیے یہ ایک پریشان کن صورت حال تھی ۔مگر ڈاکٹر اس بچے کی ولادت کا انتظار کر رہے تھے۔ سویتانے اسپتال میں چوتھے دن ایک مردہ بچی کو جنم دیا مگر اس کے جسم میں بری طرح زہر پھیل چکا تھا اور وہ تین دن موت و حیات کی کشمش میں مبتلا رہنے کے بعد 28 اکتوبر کو ہلاک ہوگئی۔
سویتا کی موت کےبعد بین الاقوامی سطح پرآئرش گورنمنٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسقاط حمل کے اپنے قانون میں ترمیم کرے۔
آئر لینڈ میں سویتا کی موت پر گورنمنٹ کے خلاف مظاہرے کئے گئے۔ جبکہ انڈین گورنمنٹ نے باقاعدہ آئرش سفیرمیک لافلین سے اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرانا کا مطالبہ کیا۔
آئر لینڈ حکومت کے بیان کے مطابق اسقاط حمل میں ترمیم کا قانون جلد ہی قانون شکل اختیار کر لے گا ۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر صحت جیمس رایلی کا کہنا تھا کہ اسقاط حمل میں ترمیم کے قانون کی تفصیلی وضاحت مسودے کی شکل میں کر دی جائے گی۔ اگرچہ دوران حمل ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہونے پر ڈاکٹر اسقاط حمل کے مجاز ہوں گے مگر اس بات کی بھی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ماں کے ساتھ بچے کی ذندگی بھی اتنی ہی اہم ہے۔
برطانوی ادارہ صحت کے مطابق سال 2011 میں 4 ہزارایک سو 49 آئرش خواتین نے برطانیہ میں اسقاط حمل کرایا۔
آئرش حکومت کو اسقاط حمل کے قانون میں ترمیم کرنے پر کیتھولک چرچ کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ڈبلن حکومت نے گذشتہ روز اعلان کیاکہ، اسقاط حمل کو بعض ناگزیر حالات میں قانونی تصور کیا جائے گا جب اس کی وجہ سے ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو اور اسے بچانے کے لیے اسقاط ضروری ہو۔
اسقاط حمل اس صورت میں بھی قانونی ہو گا جب ماں کی ذہنی حالت خراب ہو اور وہ خود کشی کرنے پر آمادہ ہو۔
آئر لینڈ ایک کیتھولک ملک ہےاور کتھولک قوانین میں اسقاط حمل پر پابندی ہے۔
تاہم سات ہفتے قبل ایک بھارتی ڈینٹسٹ سویتا آئرلینڈ میں اس قانون کی وجہ سے اپنی زندگی سے محروم ہو گئی۔ سویتا کی موت کے بعد آئر لینڈ حکومت نے اسقاط حمل کو قانونی شکل دینے کا اعلان کیا ہے۔
31سالہ سویتا ہالاپنور کی موت گالوےیونیورسٹی ہسپتال میں جسم میں زہر پھیلنے سے ہوئی۔ وہ 17 ہفتے کے حمل سے تھی ۔سویتا کی موت سے قبل اس کا حمل ضائع ہو چکا تھا، مگر بچے کی سانس باقی تھی ، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث سویتا کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی، جس پر سویتا کےشوہر34 سالہ پراوین نے ڈاکٹر سے اسقاط حمل کے لیے کہا۔ جس پر انھیں بتایا گیا ،ایک کتھولک ملک ہونے کے ناطے یہاں ایسا کرنا خلاف قانون ہے۔
سویتا اور اس کے شوہر کے لیے یہ ایک پریشان کن صورت حال تھی ۔مگر ڈاکٹر اس بچے کی ولادت کا انتظار کر رہے تھے۔ سویتانے اسپتال میں چوتھے دن ایک مردہ بچی کو جنم دیا مگر اس کے جسم میں بری طرح زہر پھیل چکا تھا اور وہ تین دن موت و حیات کی کشمش میں مبتلا رہنے کے بعد 28 اکتوبر کو ہلاک ہوگئی۔
سویتا کی موت کےبعد بین الاقوامی سطح پرآئرش گورنمنٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسقاط حمل کے اپنے قانون میں ترمیم کرے۔
آئر لینڈ میں سویتا کی موت پر گورنمنٹ کے خلاف مظاہرے کئے گئے۔ جبکہ انڈین گورنمنٹ نے باقاعدہ آئرش سفیرمیک لافلین سے اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرانا کا مطالبہ کیا۔
آئر لینڈ حکومت کے بیان کے مطابق اسقاط حمل میں ترمیم کا قانون جلد ہی قانون شکل اختیار کر لے گا ۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر صحت جیمس رایلی کا کہنا تھا کہ اسقاط حمل میں ترمیم کے قانون کی تفصیلی وضاحت مسودے کی شکل میں کر دی جائے گی۔ اگرچہ دوران حمل ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہونے پر ڈاکٹر اسقاط حمل کے مجاز ہوں گے مگر اس بات کی بھی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ماں کے ساتھ بچے کی ذندگی بھی اتنی ہی اہم ہے۔
برطانوی ادارہ صحت کے مطابق سال 2011 میں 4 ہزارایک سو 49 آئرش خواتین نے برطانیہ میں اسقاط حمل کرایا۔
آئرش حکومت کو اسقاط حمل کے قانون میں ترمیم کرنے پر کیتھولک چرچ کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے۔