پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس نے کم عمر گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے واقعے کے از خود نوٹس کی جمعہ کو سماعت کی اور پولیس کو اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے پولیس سے کہا کہ وہ لڑکی کو تلاش کر کے آئندہ ہفتے عدالت میں پیش کریں۔ جمعہ کو عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت لڑکی کہاں ہے اس بارے میں پولیس نہیں جانتی۔
تاہم جمعہ کو یہ معاملہ اُس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی دو خواتین، فرزانہ اور کوثر، عدالت میں پیش ہوئیں اور اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ 10 سال گھریلو ملازمہ طیبہ اُن کی بیٹی ہے۔
اس دعوے کے بعد اب ’ڈی این اے‘ ٹیسٹ کے ذریعے اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ طیبہ کس کی بیٹی ہے۔
عدالت میں پیش ہونے والی خواتین کا یہ موقف تھا کہ اُن کی بیٹیاں اغوا ہوئی تھیں اور جب اُنھوں نے ٹیلی ویژن پر طیبہ کی تصاویر دیکھیں تو اُنھیں یہ ہی لگا وہ اُن کی گمشدہ بیٹی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے پولیس نے گزشتہ ہفتے ایک کم عمر گھریلو ملازمہ کو برآمد کیا تھا جس کا نام طیبہ ظاہر کیا گیا۔
کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ پر مبینہ تشدد کا معاملہ اس وقت ملک میں ایک بڑا موضوع بحث بن گیا جب اس لڑکی کی تصاویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سامنے آئیں جس میں اُس کے چہرے اور ہاتھ پر تشدد کے نشان نمایاں تھے۔
طیبہ کو مبینہ طور پر جج خرم علی کی اہلیہ نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا، لیکن بعد ازاں اس لڑکی کے والد نے مقامی عدالت میں ایک بیان حلف جمع کروایا جس میں اُس نے ملزمان کو معاف کر دیا۔
تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس صلح نامے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں عموماً دباؤ ڈال کر صلح کروا دی جاتی ہے اور معاملہ دب جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل ظفر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ معاملہ یقیناً اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس میں ایک ذیلی عدالت کے جج اور اُن کی اہلیہ کا نام آ رہا ہے۔
’’یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے، اس معاملے کو اب دبایا نہیں جا سکتا۔۔۔۔ کیوں کہ اس میں ذیلی عدالت (کے جج کے نام) کا نام آیا اور ملک کی اعلیٰ ترین نے اس کا نوٹس لے رکھا ہے۔‘‘
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے موقع پر ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کی اہلیہ بھی پیش ہوئیں اور اُنھوں نے اپنے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا، واضح رہے کہ اُنھوں نے اس مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔
ملک کے اعلیٰ ترین جج کی طرف سے ایک کم عمر گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے واقعہ کا از خود نوٹس لینے کو عمومی طور پر سراہا جا رہا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے کم عمر بچوں سے مشقت کروانے اور اُنھیں تشدد کا نشانہ بنانے سے متعلق حقائق سامنے آئیں گے۔