گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیانِ حلفی پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران رانا شمیم نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کسی اخبار کو کوئی بیانِ حلفی نہیں دیا۔ ان کا بیان سربمہر تھا جو پتا نہیں کیسے افشا ہو گیا۔
سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
عدالت میں انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے مالک میر شکیل الرحمٰن اور ایڈیٹر انصار عباسی نے اس کیس میں جاری کردہ نوٹسز پر تحریری جواب جمع کرائے۔
عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں میر شکیل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جہاں تک متعلقہ خبر کی بات ہے وہ اپنے ایڈیٹر کی بات سے متفق ہیں۔ ایڈیٹر نے خبر کی اشاعت سے قبل بتایا تھا کہ وہ مطمئن ہیں کہ فریقین کا مؤقف معلوم کیا گیا ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔
اس جواب پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ توہینِ عدالت سے متعلق اہم معیار فردوس عاشق اعوان کے کیس میں طے ہو گیا تھا۔ گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا ایم شمیم کو روسٹرم پر بلوایا اور کہا کہ آپ نے تین سال بعد ایک بیان حلفی دیا ہے۔ ایک اخبار نے آپ کا بیانِ حلفی عوام تک پہنچایا ہے۔
اس پر رانا شمیم نے کہا کہ بیان حلفی شائع ہونے کے بعد ان سے رابطہ کیا گیا تھا تو انہوں نے اس بیانِ حلفی کی تصدیق کی تھی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے وہ بیان حلفی نہیں دیا تھا؟ جس پر رانا شمیم نے کہا کہ نہیں، انہوں نے بیانِ حلفی اشاعت کے لیے نہیں دیا تھا۔
رانا شمیم نے کہا کہ ان کا جو بیانِ حلفی اخبار میں چھپا وہ ابھی تک دیکھا بھی نہیں۔ اخبار نے خبر چھاپنے کے بعد ان سے رابطہ کیا تھا۔ ان کا بیانِ حلفی بند تھا پتا نہیں کس نے ان کو دے دیا۔ انہوں نے ان کو بیانِ حلفی کی کاپی نہیں دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بیان حلفی سِیل تھا تو پھر اخبار کو یہ بیان حلفی کیسے ملا؟
رانا شمیم نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ جو بیان حلفی اخبار میں رپورٹ ہوا وہ کون سا ہے؟
چیف جسٹس نے رانا شمیم سے کہا کہ تین سال بعد یہ بیانِ حلفی کس مقصد کے لیے دیا گیا ہے؟ عوام کا عدالت سے اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس بارے میں جو کچھ کہنا ہے وہ تحریری جواب میں لکھیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ اس کیس میں میڈیا کا کردار ثانوی ہے، میڈیا کے خلاف کارروائی مؤخر کی جائے اور رانا شمیم سے جواب مانگا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم کے مطابق لندن میں بیانِ حلفی ریکارڈ کرایا گیا۔ رانا شمیم کو اصل بیانِ حلفی پیش کرنے کی ہدایت کی جائے۔
چیف جسٹس نے دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف، ایڈیٹر اور ایڈیٹر انوسٹی گیشن کے جوابات عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کی ہدایت کی اور رانا شمیم کو شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے لیے سات دسمبر تک کی مہلت دے دی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مختلف بیانِ حلفی پیش ہوتا ہے تو پھر تو اخبار پر بہت زیادہ ذمہ داری آ جاتی ہے۔ رانا شمیم کے بیان نے معاملہ مزید الجھا دیا ہے۔
عدالت میں رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی کاپی ان کے پاس موجود نہ ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔ عدالت میں رانا شمیم نے کہا کہ کاپی برطانیہ میں ہی ہے۔ سات دسمبر تک دستاویزات نہیں پہنچ سکتیں۔ لہذا ان کے شوکاز پر جواب ہی آ سکے گا۔ بیانِ حلفی کی دستاویز نہیں آ سکے گی۔
عدالت نے سات دسمبر تک رانا شمیم کو اصل بیان حلفی اور شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
جج کا بیان حلفی نواز شریف سے اخبار تک پہنچا: فواد چوہدری
دوسری جانب وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں کابینہ کے اجلاس کے حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کا بیان حلفی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ذریعے اخبار تک پہنچا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے۔ امید ہے کہ عدالت اس پر کارروائی کرے گی۔
’ان کو خواب میں بھی نواز شریف ڈراتے ہیں‘
اس بارے میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے پرویز رشید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کا نوازشریف کےخلاف بیان اس وجہ سے ہے کہ ان کو خواب میں بھی نواز شریف ڈراتے ہیں اور جب یہ نیند سے جاگتے ہیں تو یہ لوگ سے نوازشریف کا نام لینا شروع کر دیتے ہیں۔
رانا شمیم کے عدالت میں دیے گئے بیان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جس جج نے یہ بیان دیا ہے وہ ایک ذمہ دار جج ہیں جنہوں نے ذمہ داری سے یہ بیان حلفی دیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے جہاں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ بیان حلفی میرا نہیں ہے بلکہ انہوں نے کہا کہ یہ میں نے جاری نہیں کیا۔
پرویز رشید کے مطابق جج رانا شمیم نے بیان حلفی سے انکار نہیں کیا۔