وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ عدالت نے حکومت کو دھرنا ختم کرانے کے لیے جمعرات تک کی مہلت دی ہے لیکن انہیں امید ہے کہ 24 یا 48 گھنٹے میں مسئلے کا حل تلاش کرلیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ دھرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وفاقی وزیرِداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ انہوں نے عدالت کو بتایا ہے کہ دھرنا آپریشن کے ذریعے کلیئر کرانے میں جانی نقصان کا خدشہ ہے، دھرنے میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کشیدگی چاہتے ہیں، امید ہے کہ دھرنے والوں کو قائل کرلیں گے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ انہوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ 24 یا 48 گھنٹے میں مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے پیر کی دوپہر تین بجے مختلف مکاتبِ فکر کے علما کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں دھرنے کے مسئلے پر مشاورت کی جائے گی۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سازشی عناصر لال مسجد یا ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نفرت پھیلانا جرم ہے جس کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی، ہم جھگڑے اور فساد سے بچنا چاہتے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ انہوں نے عدالت کو بتایا ہے کہ آئندہ اسلام آباد میں کسی کو دھرنا نہیں کرنے دیا جائے گا۔
دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ نے دارالحکومت کے ایک مرکزی داخلی راستے پر گزشتہ 15 روز سے جاری ایک مذہبی جماعت کا دھرنا ختم کرانے سے متعلق احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے اور دھرنا ختم کرانے میں ناکامی پر سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہینِ عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کردیے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ دھرنے کا مقصد کیا ہے وہ یہ نہیں جاننا چاہتے۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ دھرنے کی وجہ سے جو عام لوگ شدید متاثر ہو رہے ہیں ان کی مشکل دور کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ دھرنے والے اس اہم مقام تک پہنچے کس طرح؟ اظہارِ رائے کی آزادی ہر ایک کو حاصل ہے اور کسی کو اس سے نہیں روکیں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہ صرف ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ سیاسی جماعت بھی ہے جو انتخابات میں بھی حصہ لے چکی ہے۔
انہوں نے انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد کیسے خالی کرانا ہے یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ بے شک کسی کو خراش بھی نہ آئے یا گرفتاریاں ہوں۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پیر کی صبح فیض آباد دھرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کی جس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل، انسپکٹر جنرل پولیس اور چیف کمشنر اسلام آباد پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا ختم کرانے کے احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا جس پر دونوں اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوگئے۔
اس موقع پر جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیے کہ یہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، سب کے خلاف توہینِ عدالت کے نوٹس جا ری کروں گا۔
اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی قیادت دھرنا قائدین سے مذاکرات کر رہی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آٹھ لاکھ آبادی کے حقوق کو ہائی کورٹ نظر انداز نہیں کر سکتی، یہاں تاجروں، طلبہ اور مریضوں کا کیا قصور ہے، یہ سارا معاملہ اسلام آباد انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت سے ہوا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی کچھ چیزیں کھلی عدالت میں نہیں بتا سکتے جس پر جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں جب کہ آپ نے یہی کہنا ہے کہ دھرنے والوں کے پاس ہتھیار ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو مذہبی جماعت 'تحریکِ لبیک یارسول اللہ' کے دو ہفتوں سے جاری دھرنے کو ختم کرانے کے لیے جمعے کو 24 گھنٹوں کی مہلت دی تھی لیکن مظاہرین نے اپنا دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
وفاقی حکومت دھرنے والوں سے مذاکرات کی کوشش کرتی رہی ہے جس میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باعث اب تک یہ علاقہ کلیئر نہیں کرایا جاسکا ہے۔