رسائی کے لنکس

حماس کے نئے قائد کا جلد خاتمہ ضروری ہے: اسرائیلی وزیر خارجہ


اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز، فائل فوٹو
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز، فائل فوٹو
  • اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ نیا قائد اسرائیل پر دہشت گرد حملوں کے منصوبہ سازوں میں شامل ہے۔
  • اسرائیل سنوار کی نامزدگی کو حماس اور فلسطین پر ایران کے مکمل کنٹرول کے طور پر دیکھتا ہے۔
  • امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا ہے کہ خطے کو ایسے فیصلوں کی ضرورت ہے جس سے کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔
  • صدر بائیڈن نے مصر کے صدر السیسی اور قطر کے امیر الثانی سے گفتگو میں جنگ بندی کی کوششوں میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔

ویب ڈیسک۔۔۔اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ایک ایسے موقع پر حماس کی جانب سے مقرر کردہ نئے رہنما یحییٰ سنوار کو ہلاک کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے، جب اسرائیلی حکام تہران میں حماس کے سابق سیاسی ونگ کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد ایران کی متوقع جوابی کارروائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر سنوار کو ایک دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا، ’سنوار کا جلد خاتمہ کرنے اور اس مذموم گروپ کو کرہ ارض سے مٹانے کی ایک اور وجہ دہشت گردی میں کردار ادا کرنے والے ایک شخص کو اسماعیل ہنیہ کی جگہ لانا ہے۔‘

اسرائیل نے حماس کے سابق رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن 31 جولائی کو ان کی ہلاکت کا الزام ایرانی رہنماؤں نے اسرائیل پر لگاتے ہوئے ردعمل دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

بدھ کے روز، حماس نے سنوار کو، جو کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے منصوبہ سازوں میں سے ایک ہے، اپنا نیا رہنما نامزد کیا۔ اس اقدام پر کاٹز کا کہنا ہے کہ اس سے دنیا کو یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ مسئلہ فلسطین اب مکمل طور پر ایران اور حماس کے کنٹرول میں ہے۔

کاٹز نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو اپنے زیر قبضہ علاقے مغربی کنارے پر سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے تاکہ ایران کو وہاں انتہاپسندوں کا ایک اور ٹھکانہ بنانے سے روکا جا سکے۔

اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں متعدد بار چھاپہ مار کارروائیاں کیں ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں اور اسرائیل کے خلاف ممکنہ حملوں کو روکنا ہے۔

اکتوبر میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فائرنگ سے تقریباً 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

حزب اللہ کے رہنما نے گزشتہ ہفتے بیروت میں اسرائیل کی طرف سے اپنے ایک کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا تھا جس سے اس تنازع کے خطے میں پھیلنے سے متعلق بین الاقوامی خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے منگل کو کہا کہ خطے میں ہر ایک کو ‘ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو کشیدگی میں کمی لائیں، نہ یہ کہ ان میں اضافہ کریں‘۔

بلنکن کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گرد گروپوں یا ان کے اسپانسرز کے حملوں کے خلاف اسی طرح اسرائیل کا دفاع جاری رکھیں گے جیسے ہم اپنے فوجیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ لیکن خطے میں ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مزید حملے صرف تنازعات، عدم استحکام اور عدم تحفظ بڑھاتے ہیں اور ان سے خطرناک نتائج کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے، جن کی نہ تو پیش گوئی ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان پر مکمل قابو پایا جا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں تنازع کو ختم کرنا اور خطے میں امن قائم کرنے کا واحد راستہ غزہ میں پائیدار جنگ بندی کا حصول ہے۔

وائٹ ہاؤس نے منگل کو کہا کہ صدر جو بائیڈن نے منگل کو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کی تجدید کے لیے بات کی۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق رہنماؤں نے "اس عمل کو جلد از جلد بند کرنے کی فوری ضرورت پر اتفاق کیا۔"

وائٹ ہاؤس نے منگل کو کہا کہ صدر جو بائیڈن نے منگل کو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمدالثانی سے غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں پر بات کی اور رہنماؤں نے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں اس فلسطینی گروپ کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

جب کہ اسرائیلی کی جوابی کارروائی میں، غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 40 ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ہزاروں جنگجو بھی شامل ہیں۔

(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے پی اور اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG