رسائی کے لنکس

پاک، بھارت میچ کے دوران 'جے شری رام نعرے' کی بھارت میں گونج


کیا اب بھارت میں ’جے شری رام‘ کا نعرہ مسلمانوں کو چڑانے اور ان کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال ہفتے کو نریندر مودی اسٹیڈیم احمد آباد میں پاکستان اور بھارت میچ کے دوران شائقین کی جانب سے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے بعد بھارت میں موضوعِ بحث ہے۔

یاد رہے کہ ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں پاکستانی بلے باز محمد رضوان کے آؤٹ ہو کر پویلین لوٹنے کے موقع پر شائقین کو جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ متعدد سیاست دانوں اور اہم شخصیات نے اس پر ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔

جہاں کچھ لوگ اس نعرے بازی کی حمایت کر رہے ہیں وہیں بعض حلقوں کی جانب سے اس کی مذمت بھی کی جا رہی ہے۔

'یہ نعرہ مسلمانوں کو چڑانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے'

دہلی یونیورسٹی کے ہندی کے شعبے میں استاد، معروف تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے سینئر کارکن پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ 10 برس سے جے شری رام کا نعرہ مسلمانوں کو چڑانے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا ’اس کا استعمال مسلمانوں کے لیے حقارت کے طور پر کیا جانے لگا ہے جیسا کہ احمد آباد میں ہوا۔'

ان کے بقول یہ کوئی مذہبی نعرہ نہیں ہے۔ اسے بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کے شروع ہونے کے بعد استعمال کیا جانے لگا، اس سے قبل یہ کوئی نعرہ نہیں تھا۔

'پاک، بھارت میچ کو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جنگ سمجھا جاتا ہے'

معروف تجزیہ کار اور نئی دہلی کے تھنک ٹینک ’سینٹر فار دی اسٹڈیز آف ڈویلپمنٹ سوسائٹیز‘ (سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ ہلال احمد کہتے ہیں کہ رام جنم بھومی تحریک سے قبل شدت پسند ہندو تنظیم ’وشو ہندو پریشد‘ (وی ایچ پی) کا نعرہ تھا ’فخر سے کہو ہم ہندو ہیں۔‘ لیکن اس تحریک کے شروع ہونے کے بعد جے شری رام کا نعرہ آگیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نعرہ صرف رام مندر تحریک تک محدود نہیں رہا بلکہ اب اسے ایک عام فہم نعرہ بنا دیا گیا۔ اب وہ عام ہندو کے لیے سیاسی نعرہ نہیں رہا بلکہ ایک غیر جانب دار نعرہ بن گیا۔ اب یہ ’بھارت ماتا کی جے‘ اور ’جے ہند‘ کی طرح مقبول ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق ’احمد آباد کے واقعہ کو ایک مخصوص تناطر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج مسلمان اور پاکستان کو ایک طرح سمجھا جاتا ہے۔ بھارت پاک میچ کو ہندو اور مسلمان کے درمیان جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ مسلمانوں کو چڑانے کے لیے بلکہ ہندوتوا کی اصطلاح میں مخصوص بھارتی شناخت کی عکاسی یا اظہار کے لیے اس نعرے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

'جو گراؤنڈ میں ہوا وہ ناقابلِ قبول ہے'

بی جے پی رہنما اور ٹی وی پینلسٹ آلوک وتس نے اس سے انکار کیا کہ اب جے شری رام کا نعرہ مسلمانوں کو چڑانے اور ان کا مذاق اڑانے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ صرف مذہبی تقریبات میں ہی یہ نعرہ لگنا چاہیے ہر جگہ نہیں۔

تاہم وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ احمد آباد میں پاکستانی کھلاڑی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقابل قبول ہے۔ اس سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی کو چڑانے کے لیے ہی وہاں جے شری رام کا نعرہ لگایا گیا۔

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس طرح ایک پاکستانی کھلاڑی نے میدان میں نماز پڑھی وہ بھی درست نہیں ہے۔ ان کے مطابق اگر انہوں نے کسی دوسری نیت یا مقصد سے وہاں نماز پڑھی تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ان کو نماز پڑھنی تھی تو وہ کہیں ایسی جگہ پڑھتے جہاں لوگ دیکھ نہ پاتے۔

ادھر تمل ناڈو حکومت کے ایک وزیر دیا ندھی اسٹالن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں نعرہ بازی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اپنی اسپورٹس مین اسپرٹ اور مہمان نوازی کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن نریندر مودی اسٹیڈیم احمد آباد میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ جس رویے کا مظاہرہ کیا گیا وہ ناروا بھی ہے اور ناقابلِ قبول بھی۔

ان کے بقول ’کھیل ملکوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے اور حقیقی بھائی چارہ کو فروغ دینے والی قوت ہونا چاہیے۔ اس کو نفرت پھیلانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا قابل مذمت ہے‘۔

ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے رکن پارلیمان ساکیت گوکھلے نے بھی اس رویے کی مذمت کی اور کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی چاہتے ہیں کہ بھارت 2036 میں اولمپک کی میزبانی کرے لیکن اگر ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے ہمارے شائقین کو یہاں تک گرا دیا ہے کہ وہ ایک پاکستانی کھلاڑی کو پریشان کرنے کے لیے جے شری رام کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس بات میں زبردست شبہ ہے کہ ہم کسی بین الاقوامی کھیل کی میزبانی کے اہل ہیں۔


معروف صحافی راج دیپ سردیسائی نے بھی اس رویے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے ایکس پر کہا کہ ہم ایک دوسرے کو پیار سے 'رام رام' کہتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا مذاق اڑانے کے لیے جے شری رام کو جارحانہ نعرے کے طور پر کیوں استعمال کیا گیا۔

بی جے پی کے قومی ترجمان گورو بھاٹیہ نے دیاندھی اسٹالن کے بیان پر سخت ردِعمل ظاہر کیا اور ان کی مذمت کی۔ ان کے بقول ’نماز کے لیے میچ کو روکنا آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے رام کائنات کے گوشے گوشے میں ہیں۔ لہٰذا آپ بھی بولیے جے شری رام‘۔

تمل ناڈو کے بی جے پی صدر انا ملائی کے مطابق چنئی میں جب پاکستانی ٹیم نے میچ جیتا تو شائقین نے کھڑے ہو کر مبارکباد دہی۔ حیدرآباد میں شائقین نے ان کا خوب استقبال کیا۔ احمد آباد میں بھی ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ ایک پاکستانی کھلاڑی کے جاتے وقت جے شری رام کا نعرہ میرے خیال میں کھلاڑی کی توہین نہیں ہے۔

ان کے مطابق پارٹی مؤقف کو الگ رکھتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ کھیل کو کھیل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

ادھر سابق کپتان اور بی جے پی رہنما شیو رام کرشنن نے راج دیپ سردیسائی کے بیان کی مخالفت کی اور کہا کہ جب انھوں نے 16سال کی عمر میں پاکستان کا دورہ کیا تھا تو وہاں ان کے رنگ، نسل اور تہذیب کی بنیاد پر ان کا مذاق اڑایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ شیو رام کرشنن کو رواں سال کے جون میں تمل ناڈو بی جے پی کے اسپورٹس اینڈ اسکل ڈیولپمنٹ سیل کا اعزازی نائب صدر بنایا گیا ہے۔

مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے افغانستان اور انگلینڈ کے درمیان میچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح افغانستان کے کھلاڑیوں کی حمایت کی گئی اس سے واضح ہے کہ مذہب اور کھیل الگ الگ ہیں۔ ان کے مطابق احمد آباد میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے وہ خود ذمے دار ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG