پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں سے ملحقہ علاقے جانی خیل میں چار کمسن لڑکوں کے قتل پر آٹھ روز سے دھرنا دینے والے قبائلی عوام اور صوبائی حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔ فریقین کے درمیان ایک مصالحتی جرگے کے توسط سے آٹھ نکاتی معاہدہ ہوا ہے۔
صوبائی حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کو "تصفیہ جانی خیل امن و امان" کا نام دیا گیا ہے۔
معاہدے پر حکومت کی جانب سے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بنوں، جانی خیل قبیلے کے 13 رہنماؤں اور مصالحتی جرگہ میں شامل چھ اراکین نے دستخط کیے ہیں۔
اکیس مارچ کو جانی خیل کے علاقے وڑیکی میں چار لڑکوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔ جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے تھانہ جانی خیل کے قریب دھرنا دے دیا تھا۔
آٹھ روز بعد پیر کی صبح خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے اس آٹھ نکاتی معاہدے کی منظوری دی ہے۔
حکام اور قبائلی عمائدین میں ہونے والے معاہدے میں حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ جانی خیل میں امن و امان یقینی بنائے گی اور علاقے سے ہر قسم کے مسلح گروہوں کا صفایا کیا جائے گا۔
معاہدے کے مطابق پرامن لوگوں کے گھروں سے اسلحہ نہیں اٹھایا جائے گا اور امن کی بحالی میں کسی گھر کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ مذکورہ چاروں نوجوان لگ بھگ ایک ماہ قبل شکار کے لیے گئے تھے تاہم چند روز قبل ان کی مسخ شدہ لاشیں ملیں تھیں۔
فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق جانی خیل سے حراست میں لیے گئے افراد کی جانچ پڑتال تین ماہ میں مکمل کی جائے گی۔
اس کے ساتھ بے گناہ افراد کو ترجیحی بنیادوں پر رہا کرنے کا نکتہ بھی معاہدے کا حصہ ہے۔
معاہدے میں مارے جانے والے چاروں بچوں کے لیے پیکج اور علاقے کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکج کا نکتہ بھی شامل ہے۔
حکام سے ہونے والے معاہدے کے مطابق اتوار کو گرفتار کیے گئے افراد کو فوری رہا کیا جائے گا، چار ہلاکتوں کے واقعے کی شفاف انکوائری کی جائے گی اور ملوث افراد کو سزا دی جائے گی۔
معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
اس تحریری معاہدے میں دھرنا اور احتجاج کو فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔
'واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی'
دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ کے مشیرِ اطلاعات کامران بنگش نے ایک پریس کانفرنس میں معاہدے کا باضابطہ اعلان کیا۔
ان کے بقول قبائلی رہنماؤں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کامران بنگش نے کہا کہ مقامی علما نے اس پورے معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کامران بنگش کا کہنا تھا کہ جانی خیل واقعے کے فوری بعد حکومت نے قبائلی رہنماؤں سے رابطے کر کے مسئلے کے حل کی کوشش کی تھی مگر بعض افراد نے اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا لیکن اُنہیں ناکامی ہوئی ہے۔
میتوں کی تدفین کا معاملہ
ادھر جانی خیل قبیلے اور پشتون تحفظ تحریک کے رہنما امان اللہ جان وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ معاہدے کے بعد احتجاجی دھرنا ختم ہوگیا ہے۔
ادھر چاروں لڑکوں کی میتوں کو تدفین کے لیے جلوس کی شکل میں جانی خیل روانہ کر دیا گیا ہے۔
قبل ازیں لاشوں کے ملنے بعد دھرنا دینے والے مظاہرین نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ واقعہ کا مقدمہ درج کیا جائے، جانی خیل میں امن قائم کیا جائے، زیرِ حراست افراد کو رہا کیا جائے اور لواحقین کی مالی مدد کی جائے۔
لاشوں کے ملنے کے بعد صوبائی حکومت نے لواحقین کے لیے 10، 10لاکھ روپے کا اعلان کیا تھا جب کہ قبائلی عمائدین سے مذاکرات کی بھی کوششیں کی تھیں۔
بعد ازاں واقعہ کا مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا تھا اور عسکری حکام نے معمولی جرائم میں ملوث زیر حراست افراد کی رہائی کی یقین دہانی کرائی تھی۔
البتہ مظاہرین نے احتجاج اور دھرنا جاری رکھا تھا۔ حکام اور مظاہرین میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے تھے لیکن وہ بے نتیجہ رہے تھے۔
اتوار کو ان سے مذاکرات کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اپنے وزرا اور مشیران کے ہمراہ بنوں گئے تھے۔
اتوار کو مظاہرین کی جانب سے دھرنے کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف جانے کی کوشش کی گئی تھی۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل چلائے تھے۔