"وزیرستان کئی دہائیوں سے شورش کی لپیٹ میں ہے۔ اس جنگ زدہ علاقے کے لوگوں کا سب کچھ مسلسل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یہاں پر خواتین کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر دوسرے گھر میں کوئی نہ کوئی خاتون بیوہ اور اکثر بچوں کے سروں سے باپ کا سایہ اُٹھ چکا ہے۔ ایسے میں وہ چاہتی تھیں کہ ان تمام بے سہارا خواتین کو ہنر سکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔"
یہ کہنا تھا ارشاد بی بی کے بھائی جاوید خان کا جنہیں پیر کو نامعلوم افراد نے گھات لگا کر فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 'صباون' نامی این جی او کی گاڑی پر شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں حملہ کیا گیا۔
اس حملے میں چار خواتین ناہید بی بی، ارشاد بی بی، عائشہ بی بی اور جویریہ بی بی ہلاک جب کہ ایک مکمل طور پر محفوظ رہیں۔ حملے میں ڈرائیور عبدالخالق شدید زخمی ہوئے۔
حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔ تاہم منگل کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق خواتین پر حملے میں ملوث دہشت گرد تنظیم حافظ گل بہادر گروپ کے اہم رہنما حسن عرف سجنا کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ارشاد بی بی اور عائشہ بی بی کے بھائی، جاوید خان کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ درد میں ڈوبی آواز میں وہ صرف اتنا بتا سکے کہ انہیں حکومت یا کسی دوسرے ادارے سے کوئی معاوضہ نہیں چاہیے بلکہ وہ صرف انصاف چاہتے ہیں۔
پیر کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ارشاد بی بی عمر میں عائشہ سے بڑی تھیں۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ تاہم عائشہ بی بی کی گزشتہ سال شادی ہوئی تھی۔ اور وہ چار ماہ کی بیٹی کی ماں تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بہنیں این جی اوز کے ساتھ عرصۂ دراز سے منسلک تھیں۔ شمالی وزیرستان کی خواتین کو دست کاری سکھانے کا یہ 45 دن کا پیکج کرونا وبا سے قبل شروع ہوا۔ وہ روزانہ بنوں سے میر علی جاتی تھیں۔
عائشہ بی بی کے خاوند نکمت اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عائشہ بی بی اپنے علاقے کی خواتین کو تعلیم دلوانے کی خواہش مند تھیں۔ اسی لیے وہ روزگار کے ساتھ ساتھ ایم اے انگلش بھی کر رہی تھیں۔ پیر کو ان کو قتل کر دیا گیا جب کہ یکم مارچ کو اُن کا فائنل ایئر کا پرچہ تھا۔
نکمت اللہ نے بتایا کہ واقعے کے بعد جب اسپتال میں کسی نے ان کی اہلیہ کا پرس چیک کیا تو ان کے موبائل فون کے ذریعے انہیں فون کال کی کہ حادثہ ہوا ہے اور وہ فوری طور پر وہاں پہنچیں۔
تاہم جب وہ وہاں پہنچے تو کسی نے بتایا کہ حادثۃ نہیں بلکہ فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ خبر سن کر تو گویا پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔
اُن کے بقول بعدازاں اُنہیں اپنی اہلیہ اور سالی کی شناخت کے لیے کہا گیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ لمحہ ان کے لیے کسی بھی طرح سے قیامت سے کم نہیں تھا۔ کیوں کہ کچھ گھنٹے قبل انہوں نے اپنی اہلیہ کو صحیح سلامت گھر سے بھیجا تھا۔ لیکن اب اُن کی اہلیہ کی مسخ شدہ لاش ان کے سامنے پڑی تھی۔
نکمت اللہ کے مطابق پوسٹ مارٹم میں بہت زیادہ وقت لگا جس کے بعد انہیں شام کو لاشیں حوالے کی گئیں اور جنازہ رات نو بجے ممکن ہو سکا۔
پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں جون 2014 میں آپریشن 'ضربِ عضب' شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کرنے کے دعوے کیے گئے۔
تاہم گزشتہ چند ماہ میں سے علاقے میں گھات لگا کر قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فوج دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہے۔ تاہم وہ اپنی بقا کی خاطر علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے 'سافٹ ٹارگٹس' کا انتخاب کر رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ وزیرستان کے عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ این جی اوز کی خواتین پر حملہ کرنے والے نیٹ ورک کو 24 گھنٹوں کے اندر بے نقاب کیا گیا۔
ارشاد بی بی اور عائشہ بی بی کے علاوہ جاوید خان کی چار اور بہنیں بھی ہیں۔ ان کے گھر صبح سے شام تک تعزیت کے لیے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
جاوید خان کے مطابق لوگوں کی ہمدردی کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ایسے سیکڑوں افراد تعزیت کی غرض سے آئے جنہیں وہ جانتے تک نہیں ہیں۔ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہاں ان کو بٹھانے میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی بے گناہ بہنوں کو کتنی بے دردی سے قتل کیا گیا۔
بنوں خیبر پختونخوا کا پرانا اور تاریخی شہر ہے۔ تاہم دیگر روایتی پشتون علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی جدت کے برعکس قدامت پسند ہیں۔ تعلیم کی شرح مردوں کی طرح خواتین میں بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ لیکن روزگار کے حوالے سے جدید پیشوں میں نوکری اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے غیر سرکاری تنظیم، 'صباون' کے کوارڈینیٹر عرفان اللہ نے بتایا کہ ہلاک ہونے والی چاروں خواتین ان کے ادارے کے ساتھ مختلف علاقوں میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز میں کام کرتی تھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ میر علی میں قائم اس سینٹر میں کل 35 طالبات دست کاری کا کام سیکھ رہی تھیں۔ ایک کورس کی میعاد تین ماہ ہے جو رواں ہفتے مکمل ہونے والا تھا۔
عرفان اللہ کے مطابق اس اندوہناک واقعے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ دور افتادہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی فلاح کے منصوبے محدود ہو سکتے ہیں۔