اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ بن الحسین نے اتوار کو اعلان کیا کہ وہ اردن کی موجودہ پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً اپنا شاہی لقب ترک کر رہے ہیں۔
حمزہ پر گزشتہ اپریل میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے ایک غیر ملکی سازش کے زیر اثر ملک کی بادشاہت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ سے وفاداری کا عہد کرنے کے بعد انہیں سزا نہیں دی گئی ۔
حمزہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع ہونے والے خط میں کہا کہ حالیہ برسوں میں ان کے مشاہدے میں جو کچھ آتا رہا ہے، اس کی بنا پران کے لیے اردن کے اداروں کی جاری کر دہ پالیسیوں کی توثیق کرنا مشکل ہو گیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کا ذاتی یقین اور والد (مرحوم شاہ حسین) کے اصول ہمارے اداروں کے طرز عمل ، اصول و ضوابط اور جدید طریقوں سے مطابقت نہیں رکھتے ۔
42 سالہ حمزہ کو شاہ حسین کے انتقال کے بعد، جب شاہ عبداللہ نے تاج و تخت سنبھالا تھا ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن پانچ سال کے بعد شاہ عبداللہ نے اپنے بیٹے کو تخت کا وارث بنادیا اور حمزہ ولی عہد کے درجے سے محروم ہو گئے۔
گزشتہ سال ان پر بدعنوانی اور آمرانہ حکمرانی کے الزامات لگائے گئے تھے، جس کے بعد انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ ان الزامات میں ملوث ہونے اور شہزاد ہ حمزہ کو اس کی ترغیب دینے کی بنیاد پر ایک شاہی مشیر کو 15 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ اس جھگڑے نے اردن کو مشرق وسطیٰ کی ایک مستحکم پناہ گاہ ہونے کے تصور کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اتوار کو حمزہ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ وہ اپنی نجی زندگی میں اردن کی خدمت جاری رکھیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مستقبل میں ان کا کردار کیا ہو گا۔
پچھلے سال جنم لینے والے بحران میں شاہ عبداللہ کو عوام کی جانب سے غیر معمولی حمایت ملی تھی جس نے مغرب کی بڑی اور علاقائی طاقتوں کو شاہ عبداللہ کا ساتھ دینے کے لیے اکھٹا کر دیا تھا۔اردن ایک کٹر امریکی اتحادی ہے جو علاقائی سلامتی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
بادشاہ نے کہا تھا کہ یہ بحران سب سے زیادہ تکلیف دہ رہا ہے کیونکہ اس کا تعلق شاہی خاندان اوربیرون ملک دونوں سے تھا۔