پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹریفک حادثات اور ان میں ہلاکتوں کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین سال میں ایک ہزار سے زائد اموات اور 10 ہزار کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے تھے۔
دنیا بھر میں نومبر کا تیسرا ہفتہ گزشتہ 25 برس سے روڈ ٹریفک حادثات کا شکار ہونے والوں کی یاد میں منایا جا رہا ہے۔
'سندھ پولیس ایکسیڈنٹس انالیسز اینڈ ریسرچ سینٹر' کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 2018 میں 400 سے زائد اموات ہوئیں۔ جب کہ 2019 میں 350 سے زائد جب کہ رواں برس اب تک 280 افراد حادثات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم ان اعداد و شمار میں ان حادثات میں زخمیوں کی تعداد سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ان حادثات میں زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد اور مکمل صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے۔
اس کے علاوہ ان حادثات میں کتنے افراد دوران علاج چل بسے۔ یا پھر لمبے عرصے کے لیے کومے میں چلے گئے یا پھر عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ اس سے متعلق بھی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
حکام کے مطابق ایسے واقعات میں گزشتہ چند برس میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 8 سے 10 ہزار کے قریب ہے۔
انچارج سندھ پولیس انالیسز سینٹر علی محمد سہاگ کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جو اعداد و شمار موجود بھی ہیں وہ بھی انتہائی پریشان کن ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ادارے نے محکمۂ صحت سندھ کو ایسے افراد کا ڈیٹا فراہم کرنے کی درخواست کی تاکہ اصل صورتِ حال کا اندازہ لگایا جا سکے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایک جانب شہروں کے اندر ٹریفک حادثات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری جانب ہائی ویز اور موٹر ویز پر بھی ان کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
وزارتِ مواصلات کی فروری میں سینیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی ہائی ویز اور موٹر ویز پر حادثات کی شرح میں ایک سال کے دوران اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
تین سال قبل 2017 میں 428 حادثات میں سے 236 جان لیوا ثابت ہوئے تھے جب کہ 2018 میں ہائی ویز اور موٹر ویز پر پیش آنے والے حادثات کی کُل تعداد 478 تھی۔ جن میں سے 243 جان لیوا ثابت ہوئے۔
ہائی ویز اور موٹر ویز پر ٹریفک حادثات کی وجہ جہاں سڑکوں کی ابتر حالت اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ کرنا بتائی جاتی ہے۔ تو ریسکیو مشینری کی عدم موجودگی کے ساتھ ان سڑکوں پر ٹراما سینٹرز کا نہ ہونا بھی قرار دیا جاتا ہے۔
‘ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن’ اور صحت کے دیگر عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق بھی پاکستان میں روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹس کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور 2018 میں پاکستان میں 30 ہزار سے زائد لوگ ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جو ملک میں ہونے والی کُل ہلاکتوں کا دو فی صد جب کہ اموات کی 15ویں بڑی وجہ ہے۔
اسی طرح 2019 میں بھی 36 ہزار کے لگ بھگ افراد سڑکوں پر رونما ہونے والے حادثات کی نذر ہوئے۔ جب کہ رواں سال مارچ سے اب تک بھی 26 ہزار سے زائد افراد مختلف چھوٹے بڑے حادثات میں اپنی جانیں کھو بیٹھے ہیں۔ اس طرح یہ شرح ملک میں تشدد، گردے کے امراض، چھاتی کے کینسر اور دیگر کئی موذی امراض سے ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔
حادثات کی بڑی وجہ انسانی غلطیاں
جامعہ کراچی کے استاد اور روڈ ٹریفک حادثات پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹر سلمان زبیر کا کہنا ہے کہ ان حادثات کی بنیادی وجوہات میں انسانی غلطیوں کا احتمال سب سے زیادہ ہے۔ جس کی شرح 95 فی صد بنتی ہے۔
ان کے بقول حادثات کی دوسری بڑی وجہ تکنیکی خرابیاں ہیں جن میں سڑکوں میں پائے جانے والے انجینئیرنگ فالٹس، ماحولیاتی اثرات، بہتر روڈ انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اور دیگر شامل ہیں۔
ڈاکٹر سلمان زبیر کے مطابق انسانی غلطیوں میں اوور اسپیڈنگ، رانگ وے سفر کرنا، قانون پر عدم عمل درآمد، موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا اور کم عمری میں ڈرائیونگ جیسے عوامل کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ٹریفک حادثات کی شرح زیادہ ہونے کی بھی سب سے بڑی وجہ انسانی غلطیاں ہی ہیں۔
ان کے بقول سب سے بڑی وجہ آبادی کے بڑے حصے کو روڈ سینس نہ ہونا ہے۔ جب کہ لاہور، فیصل آباد، ملتان اور پنجاب کے دیگر شہروں کی نسبت کراچی میں رانگ وے سے سفر کرنے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بے حد زیادہ ہے۔ جہاں رانگ وے سے آنا جانا جرم کے بجائے حق سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں کُل ٹریفک کا 60 سے 70 فی صد موٹر سائیکل سواروں پر مشتمل ہے جن میں سے بہت کم لوگ ہی ہیلمٹ استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح انہوں نے بتایا کہ شہر میں کئی سگنل فری کوریڈورز بنائے گئے ہیں لیکن یہ سگنل فری کوریڈورز ایسے علاقوں سے گزر رہے ہیں جو گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ لیاقت آباد، جمشید ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا سے سگنل فری کوریڈورز گزر رہے ہیں۔ جہاں آبادی زیادہ ہے اور سڑک کراس کرنے والوں کے لیے پیڈسٹرین برجز، فٹ پاتھ اور دیگر سہولیات کا سوچا ہی نہیں گیا۔
ان کے بقول یہی نہیں بلکہ راستے میں بچت بازار بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ ٹھیلے کھڑے ہوتے ہیں اور تجاوزات کی بھر مار بھی ہے۔ جب کہ کار پارکنگ بھی مین سڑکوں پر ہی رکھی جاتی ہے جس سے ٹریفک حادثات کی شرح بڑھتی ہے۔