پاکستان کے شہر کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل پر سفر کرنے والوں کو اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ڈرگ روڈ فلائی اوور کے قریب کئی برسوں سے زیرِ تعمیر 'فیلکن مال' پر 'ایئر وار کالج انسٹی ٹیوٹ' لکھا ہوا نظر آیا جس پر پاکستان کی فضائیہ کا لوگو بھی موجود ہے۔
اس عمارت کا سنگِ بنیاد 10 دسمبر 2016 کو ایئر چیف مارشل سہیل امان نے رکھا تھا۔ دو لاکھ پانچ ہزار اسکوائر فٹ پر تعمیر کی جانے والی اس عمارت پر ایئر وار کالج انسٹی ٹیوٹ کا بورڈ نصب ہونے سے قبل یہاں ایک شاپنگ مال بنانے کا منصوبہ تھا۔
عمارت کے ڈیزائن کے مطابق یہاں 21 ہزار اسکوائر فٹ کے رقبے پر ریسٹورینٹ ایریا، 11 ہزار اسکوائر فٹ پر سنیما، نو ہزار اسکوائر فٹ پر انٹرٹینمنٹ ایریا اور پانچ ہزار اسکوائر فٹ پر فوڈ کورٹ شامل تھا۔
عمارت پر ایئر وار کالج انسٹی ٹیوٹ لکھے جانے پر جب پاکستان فضائیہ کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
فیلکن مال پاکستان فضائیہ کے زیر انتظام شاہین فاونڈیشن ٹرسٹ تعمیر کروارہی تھی۔ جو ایوی ایشن انڈسٹری، انجینئیرنگ کے علاوہ ہاؤسنگ اور کنسٹرکشن میں بھی کاروبار کرتی ہے۔
فاونڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ٹرسٹ کے قیام کا مقصد فضائیہ سے منسلک خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔
شاہین فاؤنڈیشن کے اسلام آباد میں موجود دفتر سے اس بارے میں مؤقف حاصل کرنے کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی تو فون آپریٹر کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ہاک ایڈورٹائزنگ سے رابطہ کیا جائے جو فاونڈیشن کی پبلک ریلیشن کو دیکھتی ہے۔
البتہ آپریٹر کی جانب سے دیے گئے نمبر پر رابطہ کرنے پر بھی اس حوالے سے کوئی مؤقف دینے سے اجتناب اور معذرت کرلی گئی۔
فیلکن مال پراجیکٹ کی اپنی ویب سائٹ (جو اب قابلِ رسائی نہیں رہی) سمیت سوشل میڈیا پیجز پر واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی فضائیہ کے زیرِ انتظام ہے اور یہ پی اے ایف ایئربیس فیصل کے رہائشی بلاک سے متصل شاہراہ فیصل پر تعمیر کیا جا رہا تھا جہاں سے روزانہ لاکھوں شہریوں کا گزر ہوتا ہے۔
لیکن اس عمارت کا نام جس نئے انسٹی ٹیوٹ پر رکھا گیا ہے اس کا افتتاح 11 مارچ 2021 کو صدر عارف علوی نے کیا تھا۔
البتہ یہ واضح نہیں کہ افتتاح سے لے کر اب تک یہ ایئر وار کالج انسٹی ٹیوٹ کس عمارت میں تھا اور اب اسے یہاں کیوں منتقل کیا گیا ہے۔
عمارت کے نام کی تبدیلی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حال ہی میں سپریم کورٹ نے فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمینوں کے کمرشل استعمال کے عمل کو 'شرمناک' قرار دیا تھا۔
ایک عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ کنٹونمنٹ مقاصد کے لیے آرمی، نیوی اور ایئرفورس کو دی جانے والی زمینیں فوج کے ایسے اہل کاروں کو جاری کر دی جاتی ہیں جو ان زمینیوں کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے الاٹ، ٹرانسفر اور لیز کرتے ہیں۔ پھر یہ اراضی گھروں کی تعمیر، کمرشل عمارتیں اور دیگر چیزوں کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ تمام کنٹونمنٹ زمینیں جو وفاقی حکومت یا سندھ حکومت نے الاٹ یا لیز کر کے دی ہیں وہ صرف دفاعی مقاصد ہی کے کام میں استعمال میں لائی جا سکتی ہیں اور ان کا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کنٹونمنٹ ایکٹ 1924، لینڈ ایڈمنسٹریشن کنٹرول رولز 1937 اور آئینی دفعات کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ ان کے بر خلاف بھی اگر کوئی ضوابط بنائے گئے ہیں تو ایسے تمام قوانین آئین اور قانون کے خلاف تصور ہوں گے۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس سے قبل 24 جنوری 2019 کو بھی اس معاملے پر کیس کی سماعت کے دوران کراچی میں دفاعی مقاصد کے لیے الاٹ ہونے والی زمینوں کے تجارتی سرگرمیوں کے استعمال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فوری ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے کراچی کے علاقے کارساز، شاہراہ فیصل اور راشد منہاس روڈ کے اطراف میں فوجی زمینوں پر قائم تمام شادی ہالز، سنیماز، کمرشل پلازے اور مارکیٹس کو بھی ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم ان میں سے بیشتر اب بھی قائم ہیں لیکن اس حکم کے بعد سے دیکھا گیا تھا کہ زیرِ تعمیر فیلکن مال کا باقی ماندہ کام تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
'محض نام تبدیل کرنے سے عدالتی حکم پر عمل نہیں ہو جاتا'
سپریم کورٹ کے وکیل راجہ قاسط نواز ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ محض نام تبدیل کرنے سے اعلیٰ عدالت کے اس حکم نامے پر عملدرآمد نہیں ہو جاتا۔ مال کا اپنا ڈیزائن ہوتا ہے اور ایئر وار کالج کی تعمیر الگ انداز میں ہوتی ہے۔ ان کے بقول عمارت کے نام کی تبدیلی غالباً عدالت کو گمراہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمین پر ایئر وار کالج کا انسٹی ٹیوٹ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس جگہ سے متعلق لیز کی دستاویز میں اس کا کیا استعمال بیان کیا گیا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ کی حکومت کے زمانے میں دفاعی مقاصد کے لیے زمین ایک متعین دورانیے کے لیے فوج کو دی جاتی تھی اور اگر فوج کو اس زمین کی ضرورت نہ رہے یا اس کی متبادل زمین درکار ہو تو اس کے لیے فوج صوبائی حکومت سے درخواست کرنے کی پابند ہے۔ لیکن اس صورت میں پہلے سے استعمال شدہ زمین حکومت کو واپس کرنا ضروری ہے۔
راجہ قاسط نواز کا کہنا تھا کہ اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ گزشتہ عرصے میں لی گئی تقریباً تمام ہی زمینیں شہر کے اندر آچکی ہیں۔ جسے کمرشل اور رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان زمینوں کی مالک صوبائی حکومتیں اس کے غلط استعمال پر سوال اٹھانے کی جرات نہیں کرتیں کیوں کہ انہیں ممکنہ طور پر برے نتائج کا خدشہ ہوتا ہے۔
ایک اور قانونی ماہر اور سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو کا بھی خیال ہے کہ دفاعی مقصد کے لیے زمین پر ایئروار کالج ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے خیال میں دفاعی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمین پر بھی ایئر وار کالج یا کسی بھی قسم کی تعمیرات کے لیے فضائیہ کو متعلقہ حکومت یعنی سندھ حکومت سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔
بیرسٹر ضمیر گھمرو کے مطابق حکومت کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ آخر دفاعی مقاصد میں وہ کون سی مخصوص سرگرمی ہے جس کے لیے یہ زمین استعمال ہوسکتی ہے۔
فیلکن مال اور نسلہ ٹاور کیس میں کوئی مماثلت ہے؟
سوشل میڈیا پر ایئر وار کالج کے بورڈ کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد یہ اس موضوع پر بحث کی جا رہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ ایک رہائشی عمارت کو گرانے کا حکم دے سکتی ہے تو فضائیہ کی زمین پر زیر تعمیر شاپنگ مال کیوں نہیں گرایا گیا؟
راجہ قاسط نواز کا کہنا ہے کہ درحقیقت فضائیہ نہیں چاہتی کہ اس عمارت کو توڑا جائے اور اسی لیے عدالت کے کسی ایسے حکم سے قبل ہی عمارت کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فیلکن مال کی تعمیر تجارتی مقاصد کے لیے کی جارہی تھی اور اس کے لیے ملٹری بجٹ استعمال کیا گیا تھا۔ اس لیے یہ سوال تو بالکل جائز ہے کہ اگر عوام کی اپنی کمائی سے بنائی گئی عمارتیں غیر قانونی قرار دے کر توڑی جاسکتی ہیں تو پھر کثیر حکومتی سرمائے سے زیر تعمیر عمارت کو کیوں نہیں توڑا گیا۔
دوسری جانب ضمیر احمد گھمرو کا کہنا ہے کہ نسلہ ٹاور کی تعمیر اس لیے غیر قانونی قرار دی گئی کیوں کہ وہ سروس روڈ کی زمین پر تجاوز کرکے بنائی گئی تھی۔ ظاہری طور پر یہ زمین لیز شدہ بھی تھی لیکن عدالت نے قرار دیا تھا کہ سندھ مسلم سوسائٹی نے اس کی لیز جاری کی تھی جو اس کے لیے مجاز ہی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ فیلکن مال کی تعمیر پر سوال یہ اٹھا تھا کہ زمین جس مقصد کے لیے دی گئی اس پر تعمیرات اس کے مطابق نہیں کی گئیں۔ اس لیے یہ معاملہ نسلہ ٹاور کے کیس سے مختلف ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل آشکار داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نسلہ ٹاور کے کیس میں عدالت نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ جس پلاٹ پر تعمیر کی گئی اس کا کچھ حصہ 1956 میں چیف کمشنر نے پلاٹ کی شکل میں الاٹ کیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ سڑک یعنی سروس روڈ کی جگہ تھی اور اس سے تمام ہی اداروں نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے یہ دیکھا کہ لے آؤٹ منظور ہوگیا ہے اور پلاٹ کمرشلائز ہے تو نقشہ پاس کردیا گیا کیوں کہ اتھارٹی کے مینڈیٹ کی تمام ضروریات پوری کردی گئی تھیں۔ لیکن انہوں نے فیلکن ٹاور سے متعلق کسی بھی تبصرے سے معذرت ظاہر کی۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے دفاعی مقاصد کے لیے دی گئی زمینوں کو کرائے کی بنیاد پر یا اونر شپ پر بھی تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے واضح طور پر منع کر رکھا ہے۔
’نسلہ ٹاور کیس کا کوئی موازنہ نہیں بنتا‘
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک اور سابق ڈائریکٹر جنرل اور سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر فاروقی کا کہنا ہے کہ دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمینوں پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ فیلکن مال کی تعمیرات ان قواعد و ضوابط کے تحت نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ تعمیرات ایئربیس کی زمین پر کی جارہی تھیں تو اس کا کوئی ریکارڈ سول اداروں کے پاس نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے چیک کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نہ ہی ایئرفورس کوئی نقشہ جمع کرانے کی پابند ہے۔
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی رؤف اختر فاروقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیلکن شاپنگ مال کے معاملے کا نسلہ ٹاور سے کوئی موازنہ نہیں بنتا۔
ادھر سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) میاں ہلال حسین نے دوران سماعت سپریم کورٹ میں مؤقف اپنایا تھا کہ حکومت نے اس بارے میں فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ دفاعی مقاصد کے لیے دی گئی زمینیں کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوں گی۔
البتہ انہوں ںے صفائی پیش کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ دفاعی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمینوں کے اسٹرٹیجک مقاصد کا مفہوم وسیع ہے اور اس میں کمرشل مقاصد بھی شامل ہوتے ہیں اور اس کا مقصد زمانۂ امن میں فوج کے مورال کو بلند رکھنا ہوتا ہے۔