کراچی میں ناجائز اسلحہ تک عام لوگوں کی آسان رسائی اور فراوانی نے شہریوں کی نفسیات بدل دی ہیں۔ آج اسلحہ کے بغیر خود کو غیر محفوظ خیال کیاجاتا ہے ۔ شہرکے باسیوں کا مائنڈ سیٹ کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ جب تک گلی کے باہر، گھر کے دروازے پر یا دفتر کے استقبالئے اور بینک کے قریب اسلحہ بردار سیکورٹی گارڈ نہ ہو خوف ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔
ایک بزرگ شہری اور کئی فیکٹریوں کے روح رواں ادریس عالم نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں بتایا کہ” مہنگی گاڑیاں رکھنا اور ہرسال اسے بدلنا ان کا برسوں پرانا شوق رہا ہے مگر جب سے شہر میں ’اسلحہ کی اجارہ داری‘ ہوئی ہے وہ نئی گاڑی خریدتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں لوگوں کی نظر میں نہ آجائیں ۔“
ان کا کہناہے ” پانچ چھ سال پہلے ایک گاڑی خرید ی تھی اب خود کی اور اس کی حفاظت کے لئے ہردم ایک مسلح گارڈ اپنے ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ،گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اور کہیں بھی موو کرنے سے پہلے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر گارڈ کی موجودگی اب’ وقت کی ضرورت‘ بن گئی ہے۔“
شہر کی فضاوٴں میں بارود کی بو۔۔ نوعمرلڑکوں کے ہاتھ میں جدید اسلحہ اور جیبوں میں کتابوں کی جگہ ٹھوسی ہوئی گولیاں۔۔ہرروز آٹھ نو لوگوں کا قتل، فائرنگ، دستی بموں کے حملے،بھتہ خوری ، اسٹریٹ کرائم ، ڈاکہ زنی اور لاشوں کی برآمدگی ۔۔بدقسمتی سے یہ کسی اور شہر کی نہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک افسوسناک جھلک ہے۔ شہر میں پولیس اور رینجرز کے علاوہ ڈھیرساری سیکورٹی ایجنسیاں ہیں مگر کوشش کے باوجودطویل عرصے سے اس صورتحال پرکوئی بھی قابو نہیں پاسکا۔
اس صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کراچی کے ایک ریٹائرڈ پولیس افسر محمد اسلم مغل کا کہنا ہے ”فائرنگ، قتل و غارت ، بھتہ خوری، جرائم اور ڈاکہ زنی جیسے درجنوں کرائمزکی اصل وجہ وہ ناجائز اسلحہ ، گولہ بارود اور دستی بم ہیں جن تک رسائی نہایت آسان ہوگئی ہے۔اس وقت کراچی والے دن بھر میں اتنی روٹیاں نہیں پکاتے، کھاتے جتنی گولیاں چل جاتی ہیں“
محمد اسلم کا مزید کہنا ہے” اسلحہ تک آسان رسائی نے تحمل اور برداشت کا مادہ ختم کردیا ہے ۔ آج ہر شخص معمولی معمولی باتوں پرطیش میں آجاتا ہے کیوں کہ وہ اس بھرم میں ہے کہ اسلحہ کے زور پر وہ جوچاہے گا منوالے گا ۔“
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ” اس وقت انتہائی خوفناک صورتحال یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی اسلحہ رکھنا شروع کردیا ہے ۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ جانے کب اور کس گلی میں کسی جرائم پیشہ شخص سے آمنا سامنا ہوجائے لہذا اس سے پہلے کہ وہ مجھے مارے میں اسے قابو کرلوں گا۔“
وہ مزید کہتے ہیں کہ آج کے نوجوان کوٹیبلز یا ’پہاڑے ‘ اتنے پختہ طریقے سےیاد نہیں جتنے انہیں راکٹ لانچر، مارٹر گولے،کلاشنکوف، رائفل، ہیوی مشین گن، توپ شکن گن ، مارٹر گن، ٹی ٹی اور رپیٹر جیسے آتشیں اسلحہ کے نام ازبر ہیں۔
کراچی نفسیاتی اسپتال کے چیف سیکریٹری اور ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر کا کہنا ہے کہ ”اسلحہ کی بے روک ٹوک خریداری اور شہر میں موجودگی کے لوگوں پر بہت برے اثرات پڑرہے ہیں۔ لوگ معمولی سے معمولی بات پر اسلحہ نکال لیتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو لوگ اسلحہ چلانا یا اس تک رسائی نہیں رکھتے وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں۔ حیران کن طور پر ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں دن دگنا اضافہ ہورہا ہے“
ڈاکٹر مبین نے اپنی بات کی تائید میں ایک اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا”حال ہی میں لانڈھی کے علاقے مانسہرہ کالونی کی ایک مسجد سے ایک 10سالہ بچے’حیات ‘کی چپل چوری ہوگئی ۔ نماز کے بعد کسی نے اسے بتایا کہ اس کی چپل علاقے کے ہی ایک اور رہائشی فاروق کے بیٹے نے پہنی ہوئی ہے۔ پہلے تو حیات نے اپنے والد محمد فضل سے پورا قصہ بیان کیا اور پھر دونوں باپ بیٹے فاروق کے گھر پہنچ گئے۔
دوران گفتگو محمد افضل اور فاروق کے درمیان پہلے تلخ کلامی ہوئی پھر بات جھگڑے تک پہنچ گئی ۔ پھر یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے اتنا طول کھینچ گیا کہ دونوںطرف سے بندوقیں اور جدید اسلحہ نکل آیا۔ دونوں طرف سے اندھا دھند گولیاں برسیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں باپ بیٹے سمیت 4 افراد ہلاک اور خاتون سمیت 4 لوگ زخمی ہو گئے۔
ان کا کہنا ہے ”معاملہ صرف معمولی چپل کی چوری کا ہی نہیں تھا بلکہ اس واقعے کے پیچھے ناجائز اسلحہ کی اکڑتھی کہ دوسرا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، ہم اسلحہ کی زبان جانتے ہیں“
درس و تدریس کے شعبے اور کراچی کے ایک نجی کالج کی پروفیسر نزہت جبیں کا کہنا ہے ”بات اب چھوٹے موٹے اسلحے سے بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ جس شہر کے بیچ و بیچ واقع گوداموں سے ہزاروں کی تعداد میں دستی بم ملیں اور زیر زمین بارود چھپا ہووہاں کی زمین میں گلاب یا ببول کے درخت نہیں بارود ہی اگے گا“ وہ کورنگی کے علاقے میں واقع ایک فیکٹری سے ہزاروں دستی بموں کی حالیہ دستیابی کا حوالہ دے رہی تھیں ۔
پروفیسر ڈاکٹر نزہت جبیں کا کہنا ہے کہ رمضان میں ان کے شوہر نے جب راستے میں ایک صحت مند نوجوان بھکاری کو کچھ رقم دی تو ان سے برداشت نہ ہوا اور انہوں نے شوہر سے کہا کہ وہ ہٹے کٹے نوجوان کو بھیک دے کر اس کی عادت خراب کررہے ہیں ۔
اس پر ان کے شوہر کا کہنا کہ میں نے صرف اس ڈر سے اسے بھیک دی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ انکار پر اسلحہ نہ اٹھالے ۔
ایک بزرگ شہری اور کئی فیکٹریوں کے روح رواں ادریس عالم نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں بتایا کہ” مہنگی گاڑیاں رکھنا اور ہرسال اسے بدلنا ان کا برسوں پرانا شوق رہا ہے مگر جب سے شہر میں ’اسلحہ کی اجارہ داری‘ ہوئی ہے وہ نئی گاڑی خریدتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں لوگوں کی نظر میں نہ آجائیں ۔“
ان کا کہناہے ” پانچ چھ سال پہلے ایک گاڑی خرید ی تھی اب خود کی اور اس کی حفاظت کے لئے ہردم ایک مسلح گارڈ اپنے ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ،گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اور کہیں بھی موو کرنے سے پہلے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر گارڈ کی موجودگی اب’ وقت کی ضرورت‘ بن گئی ہے۔“
شہر کی فضاوٴں میں بارود کی بو۔۔ نوعمرلڑکوں کے ہاتھ میں جدید اسلحہ اور جیبوں میں کتابوں کی جگہ ٹھوسی ہوئی گولیاں۔۔ہرروز آٹھ نو لوگوں کا قتل، فائرنگ، دستی بموں کے حملے،بھتہ خوری ، اسٹریٹ کرائم ، ڈاکہ زنی اور لاشوں کی برآمدگی ۔۔بدقسمتی سے یہ کسی اور شہر کی نہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک افسوسناک جھلک ہے۔ شہر میں پولیس اور رینجرز کے علاوہ ڈھیرساری سیکورٹی ایجنسیاں ہیں مگر کوشش کے باوجودطویل عرصے سے اس صورتحال پرکوئی بھی قابو نہیں پاسکا۔
اس صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کراچی کے ایک ریٹائرڈ پولیس افسر محمد اسلم مغل کا کہنا ہے ”فائرنگ، قتل و غارت ، بھتہ خوری، جرائم اور ڈاکہ زنی جیسے درجنوں کرائمزکی اصل وجہ وہ ناجائز اسلحہ ، گولہ بارود اور دستی بم ہیں جن تک رسائی نہایت آسان ہوگئی ہے۔اس وقت کراچی والے دن بھر میں اتنی روٹیاں نہیں پکاتے، کھاتے جتنی گولیاں چل جاتی ہیں“
محمد اسلم کا مزید کہنا ہے” اسلحہ تک آسان رسائی نے تحمل اور برداشت کا مادہ ختم کردیا ہے ۔ آج ہر شخص معمولی معمولی باتوں پرطیش میں آجاتا ہے کیوں کہ وہ اس بھرم میں ہے کہ اسلحہ کے زور پر وہ جوچاہے گا منوالے گا ۔“
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ” اس وقت انتہائی خوفناک صورتحال یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی اسلحہ رکھنا شروع کردیا ہے ۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ جانے کب اور کس گلی میں کسی جرائم پیشہ شخص سے آمنا سامنا ہوجائے لہذا اس سے پہلے کہ وہ مجھے مارے میں اسے قابو کرلوں گا۔“
وہ مزید کہتے ہیں کہ آج کے نوجوان کوٹیبلز یا ’پہاڑے ‘ اتنے پختہ طریقے سےیاد نہیں جتنے انہیں راکٹ لانچر، مارٹر گولے،کلاشنکوف، رائفل، ہیوی مشین گن، توپ شکن گن ، مارٹر گن، ٹی ٹی اور رپیٹر جیسے آتشیں اسلحہ کے نام ازبر ہیں۔
کراچی نفسیاتی اسپتال کے چیف سیکریٹری اور ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر کا کہنا ہے کہ ”اسلحہ کی بے روک ٹوک خریداری اور شہر میں موجودگی کے لوگوں پر بہت برے اثرات پڑرہے ہیں۔ لوگ معمولی سے معمولی بات پر اسلحہ نکال لیتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو لوگ اسلحہ چلانا یا اس تک رسائی نہیں رکھتے وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں۔ حیران کن طور پر ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں دن دگنا اضافہ ہورہا ہے“
ڈاکٹر مبین نے اپنی بات کی تائید میں ایک اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا”حال ہی میں لانڈھی کے علاقے مانسہرہ کالونی کی ایک مسجد سے ایک 10سالہ بچے’حیات ‘کی چپل چوری ہوگئی ۔ نماز کے بعد کسی نے اسے بتایا کہ اس کی چپل علاقے کے ہی ایک اور رہائشی فاروق کے بیٹے نے پہنی ہوئی ہے۔ پہلے تو حیات نے اپنے والد محمد فضل سے پورا قصہ بیان کیا اور پھر دونوں باپ بیٹے فاروق کے گھر پہنچ گئے۔
دوران گفتگو محمد افضل اور فاروق کے درمیان پہلے تلخ کلامی ہوئی پھر بات جھگڑے تک پہنچ گئی ۔ پھر یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے اتنا طول کھینچ گیا کہ دونوںطرف سے بندوقیں اور جدید اسلحہ نکل آیا۔ دونوں طرف سے اندھا دھند گولیاں برسیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں باپ بیٹے سمیت 4 افراد ہلاک اور خاتون سمیت 4 لوگ زخمی ہو گئے۔
ان کا کہنا ہے ”معاملہ صرف معمولی چپل کی چوری کا ہی نہیں تھا بلکہ اس واقعے کے پیچھے ناجائز اسلحہ کی اکڑتھی کہ دوسرا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، ہم اسلحہ کی زبان جانتے ہیں“
درس و تدریس کے شعبے اور کراچی کے ایک نجی کالج کی پروفیسر نزہت جبیں کا کہنا ہے ”بات اب چھوٹے موٹے اسلحے سے بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ جس شہر کے بیچ و بیچ واقع گوداموں سے ہزاروں کی تعداد میں دستی بم ملیں اور زیر زمین بارود چھپا ہووہاں کی زمین میں گلاب یا ببول کے درخت نہیں بارود ہی اگے گا“ وہ کورنگی کے علاقے میں واقع ایک فیکٹری سے ہزاروں دستی بموں کی حالیہ دستیابی کا حوالہ دے رہی تھیں ۔
پروفیسر ڈاکٹر نزہت جبیں کا کہنا ہے کہ رمضان میں ان کے شوہر نے جب راستے میں ایک صحت مند نوجوان بھکاری کو کچھ رقم دی تو ان سے برداشت نہ ہوا اور انہوں نے شوہر سے کہا کہ وہ ہٹے کٹے نوجوان کو بھیک دے کر اس کی عادت خراب کررہے ہیں ۔
اس پر ان کے شوہر کا کہنا کہ میں نے صرف اس ڈر سے اسے بھیک دی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ انکار پر اسلحہ نہ اٹھالے ۔