گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں جاری لاپتہ افراد کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی کہ کراچی میں ایم کیوایم کی جانب سے 6 ماہ کے دوران 45 سے زائد کارکنوں کے لاپتہ ہو جانے کا شور ہرطرف سنائی دینے لگا ہے۔ پھر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اپنے کارکنوں کے مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کے چرچے، عدالتوں میں ان واقعات کے خلاف درخواستیں، اسمبلی اجلاسوں کا بائیکاٹ، ٹی وی پراگرامز میں بحث مباحثے اور ہڑتالیں، ان سب کو دیکھ کرسیاسی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا یہ خدشہ بے جانہیں کہ لاپتہ افراد کا یہ معاملہ کہیں راکھ میں دبی چنگاری ثابت نہ ہو۔
ایم کیوایم دعویٰ کرتی رہی ہے کہ سن 1990ء میں ہونے والا آپریشن محض ان کے خلاف تھا۔ اتفاق سے اس وقت بھی کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹیڈ آپریشن جاری ہے جس کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے بعض کارکنوں کو بھی زیرحراست لایا گیا۔
مبصرین کے مطابق کچھ تو متحدہ قومی موومنٹ کی سیاسی عادات اس نوعیت کی ہیں کہ وہ ہر معاملے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور کچھ حالات بھی ایسے ہیں کہ اسی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ مختلف واقعات پیش آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر پی آئی بی کالونی سے ایم کیو ایم کا ایک کارکن محمد علی بھی پچھلے چار ماہ سے لاپتہ ہے جبکہ اس کی والدہ تمام تر کوششوں اورہر قسم کی بھاگ دوڑ کرنے کے باوجود اسے تلاش کرنے میں ناکام ہوگئیں اور مایوسی کی حالت میں بلاخر پیر کے روز انتقال کرگئیں۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ محمد علی کو 7 اکتوبر 2013ء کو سادہ لباس میں ملبوس قانون نافذ کرنے والوں نے گرفتار کیا تھا۔ اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے اس کی ماں نے تھانوں اور سرکاری ایوانوں کے چکر پہ چکر لگائے، پٹیشن بھی دائر کی لیکن حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوا۔ محمد علی آج بھی لاپتہ ہے۔
نامہ نگار کی اطلاعات کے مطابق بیٹے کی جدائی نے ماں کو بیمار اور لاغر کردیا تھا۔ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے زیر ِعلاج تھیں اور مختلف اسپتالوں میں ان کا علاج بھی ہوا لیکن بیٹے سے دوری ہی دراصل ان کی موت کا سبب بن گئی۔
گزشتہ ہفتے ایم کیوایم کا ایک اور کارکن سلیمان مبینہ طور پر پولیس کے تشدد سے دم توڑ گیا ۔ اس کی ہلاکت کے خلاف متحدہ یوم سوگ بھی مناچکی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے یوم سوگ کا مقصد ہڑتال ہی ہوتا ہے۔
متحدہ اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرچکی ہے۔ درخواست میں لواحقین کو معاوضہ اداکرنے کی بات کی گئی ہے۔ ایم کیوایم نے سلیمان کی موت میں حکومت سندھ، کراچی پولیس چیف، ایس ایس پی ایسٹ اور ایس پی کورنگی کو ملوث قرار دیا ہے ۔
اس سے قبل ایک اور کارکن فہد عزیز کیساتھ پیش آنے والے واقعے نے بھی لوگوں کے دلوں میں ایک مرتبہ پھر ایم کیوایم کے لئے ہمدردی کی لہر دوڑا دی ہے۔ فہد عزیز کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنی شادی میں مصروف تھا اور برات واپس گھرجارہی تھی کہ راستے میں پولیس نے بارات کو روک کر بغیر کچھ کہے سنے فہد عزیز کو حراست میں لے لیا۔ دوران تفتیش اس پر مبینہ طور پر ٹھرڈ ڈگری تشدد کیا گیا جس کے سبب وہ کئی دنوں تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہا۔
متحدہ کے مطالبے پر حکومت سندھ کا موقف یہ ہے کہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیاجارہا ہے کسی خاص جماعت کو نشانہ بنانا مقصد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سندھ نے متحدہ کے اعتراض کے باوجود سندھ حکومت کا کراچی میں دباؤ میں آئے بغیر ٹارگٹڈ آپریشن مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ بدھ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں ہوا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات، ڈی جی رینجرز سندھ، آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران رینجرز اور پولیس حکام نے شہر میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ حالیہ کارروائیوں کے دوران شہر میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔
لیکن ایم کیوایم کا کہنا یہی ہے کہ آپریشن کا مقصد اسے نشانہ بنانا ہے۔ ادھر گزشتہ روز ایک اور کارکن محمد عادل بھی مبینہ طور پر پولیس تشدد کے سبب ہلاک ہو گیا جبکہ زیر ِنظر تحریر کی تکمیل کے دوران ہی ایم کیوایم کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کے اعلان کی خبریں بھی آنے لگی ہیں۔ یہ اعلان بڑے پیمانے پر کئے جانے کی خبریں ہیں۔ ان تمام حالات میں مبصرین کے نزدیک، حکومت سندھ اور وفاقی وزارت داخلہ کو احتیاط کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا ورنہ راکھ میں چھپی چنگاری باہر آکر معاملات کو مزید خراب کرسکتی ہے۔
ایم کیوایم دعویٰ کرتی رہی ہے کہ سن 1990ء میں ہونے والا آپریشن محض ان کے خلاف تھا۔ اتفاق سے اس وقت بھی کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹیڈ آپریشن جاری ہے جس کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے بعض کارکنوں کو بھی زیرحراست لایا گیا۔
مبصرین کے مطابق کچھ تو متحدہ قومی موومنٹ کی سیاسی عادات اس نوعیت کی ہیں کہ وہ ہر معاملے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور کچھ حالات بھی ایسے ہیں کہ اسی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ مختلف واقعات پیش آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر پی آئی بی کالونی سے ایم کیو ایم کا ایک کارکن محمد علی بھی پچھلے چار ماہ سے لاپتہ ہے جبکہ اس کی والدہ تمام تر کوششوں اورہر قسم کی بھاگ دوڑ کرنے کے باوجود اسے تلاش کرنے میں ناکام ہوگئیں اور مایوسی کی حالت میں بلاخر پیر کے روز انتقال کرگئیں۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ محمد علی کو 7 اکتوبر 2013ء کو سادہ لباس میں ملبوس قانون نافذ کرنے والوں نے گرفتار کیا تھا۔ اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے اس کی ماں نے تھانوں اور سرکاری ایوانوں کے چکر پہ چکر لگائے، پٹیشن بھی دائر کی لیکن حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوا۔ محمد علی آج بھی لاپتہ ہے۔
نامہ نگار کی اطلاعات کے مطابق بیٹے کی جدائی نے ماں کو بیمار اور لاغر کردیا تھا۔ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے زیر ِعلاج تھیں اور مختلف اسپتالوں میں ان کا علاج بھی ہوا لیکن بیٹے سے دوری ہی دراصل ان کی موت کا سبب بن گئی۔
گزشتہ ہفتے ایم کیوایم کا ایک اور کارکن سلیمان مبینہ طور پر پولیس کے تشدد سے دم توڑ گیا ۔ اس کی ہلاکت کے خلاف متحدہ یوم سوگ بھی مناچکی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے یوم سوگ کا مقصد ہڑتال ہی ہوتا ہے۔
متحدہ اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرچکی ہے۔ درخواست میں لواحقین کو معاوضہ اداکرنے کی بات کی گئی ہے۔ ایم کیوایم نے سلیمان کی موت میں حکومت سندھ، کراچی پولیس چیف، ایس ایس پی ایسٹ اور ایس پی کورنگی کو ملوث قرار دیا ہے ۔
اس سے قبل ایک اور کارکن فہد عزیز کیساتھ پیش آنے والے واقعے نے بھی لوگوں کے دلوں میں ایک مرتبہ پھر ایم کیوایم کے لئے ہمدردی کی لہر دوڑا دی ہے۔ فہد عزیز کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنی شادی میں مصروف تھا اور برات واپس گھرجارہی تھی کہ راستے میں پولیس نے بارات کو روک کر بغیر کچھ کہے سنے فہد عزیز کو حراست میں لے لیا۔ دوران تفتیش اس پر مبینہ طور پر ٹھرڈ ڈگری تشدد کیا گیا جس کے سبب وہ کئی دنوں تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہا۔
متحدہ کے مطالبے پر حکومت سندھ کا موقف یہ ہے کہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیاجارہا ہے کسی خاص جماعت کو نشانہ بنانا مقصد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سندھ نے متحدہ کے اعتراض کے باوجود سندھ حکومت کا کراچی میں دباؤ میں آئے بغیر ٹارگٹڈ آپریشن مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ بدھ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں ہوا۔ اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات، ڈی جی رینجرز سندھ، آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران رینجرز اور پولیس حکام نے شہر میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ حالیہ کارروائیوں کے دوران شہر میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔
لیکن ایم کیوایم کا کہنا یہی ہے کہ آپریشن کا مقصد اسے نشانہ بنانا ہے۔ ادھر گزشتہ روز ایک اور کارکن محمد عادل بھی مبینہ طور پر پولیس تشدد کے سبب ہلاک ہو گیا جبکہ زیر ِنظر تحریر کی تکمیل کے دوران ہی ایم کیوایم کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کے اعلان کی خبریں بھی آنے لگی ہیں۔ یہ اعلان بڑے پیمانے پر کئے جانے کی خبریں ہیں۔ ان تمام حالات میں مبصرین کے نزدیک، حکومت سندھ اور وفاقی وزارت داخلہ کو احتیاط کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا ورنہ راکھ میں چھپی چنگاری باہر آکر معاملات کو مزید خراب کرسکتی ہے۔