کراچي کے علاقے لياری ميں دہشتگردوں کی جانب سے نیم فوجی دستے پر حملے میں ایک اہلکار ہلاک، جبکہ تین زخمی ہوگئے۔ فائرنگ میں پانچ مبینہ دہشتگردی بھی مارے گئے.
حکام کے مطابق، یہ حملہ اس وقت ہوا جب رينجرز کی موبائل وین علاقے میں معمول کے گشت پر تھی۔ لیاری کے علاقے علی محمد محلے میں نامعلوم ملزمان نے رینجرز کی گاڑی پر فائرنگ کی۔ فائرنگ کے تبادلے میں چار زخمی ہونے والے اہلکاروں کو سول ہسپتال کراچی منتقل کیا گیا، جن میں سے ایک رینجرز اہلکار، فواد زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگیا.
رینجرز حکام کے مطابق، موبائل پر جدید خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی تھی۔
رینجرز اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں پانچ مبینہ دہشتگرد بھی مارے گئے جن کی شناخت اب تک نہیں ہو سکی۔ ترجمان رینجرز کے مطابق ہلاک دہشتگردوں کے قبضے سے ہينڈ گرينيڈ، تين عدد دیسی ساختہ بم، ايک نائم ايم ايم پستول، کلاشنکوف اور ميگزين برآمد کئے گئے ہیں۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری علاقے میں طلب کر لی گئی۔ علاقے کی ناکہ بندی کرکے سرچ آپریشن آخری اطلاعات تک جاری تھا۔ اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملزمان میں شدید فائرنگ کی بھی اطلاعات آئی ہیں۔
دوسری جانب، وزير داخلہ سہيل انور سيال نے واقعے کا نوٹس ليتے ہوئےڈی آئی جی کراچی ساؤتھ سے تفصيلی انکوائری رپورٹ طلب کرلی ہے۔
کراچی کا علاقہ لیاری کئی وجوہات کی بنا پر الگ شناخت رکھتا ہے۔ کراچی کی یہ قدیم اور نسبتاً غریب بستی ’گینگز‘ کی آپسی لڑائی کے باعث سالوں پولیس کے لئے ’نو گو ایریا‘ بنا ہوا تھا۔
شہر میں 2014 میں شروع ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد یہاں حالات میں قدرے بہتری آئی تھی۔ اس سے قبل یہ علاقہ بدنام زمانہ گینگ وار اور لاقانونیت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور یہ علاقہ منشیات، غیر قانونی اسلحے، اغوا برائے تاوان اور دہشتگردی کا اہم مرکز بنا ہوا تھا۔
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر جان بلوچ کو فوج نے اپنی تحویل مین لے رکھا ہے۔ عذیر بلوچ پر مختلف عدالتوں میں قتل، اقدام قتل، پولیس پر حملہ اور اغوأ جیسے سنگین نوعیت کے درجنوں مقدمات زیر سماعت ہیں۔
تاہم، فوج نے انہیں ملکی راز دشمن ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کے تحت گرفتار کرکے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ تاہم، ان پر ایسے مقدمات کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
لیاری میں امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری آنے کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ حملہ کراچی اور بالخصوص لیاری میں امن و امان کے حکومتی دعوؤں پر یقیناً ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر گیا ہے۔