کراچی میں جمعے کو پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کا طیارہ رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں 99 افراد سوار تھے جن میں سے 97 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
کراچی کی ماڈل کالونی کے کئی رہائشیوں نے اپنے گھر کی چھت سے طیارہ گرنے کا ہولناک منظر دیکھا۔ انہیں میں ماڈل کالونی کے رہائشی، صحافی ارشد قریشی بھی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ارشد قریشی نے واقعے کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا کہ جب طیارہ گزرا تو گمان ہوا کہ اس میں سے کوئی آواز نہیں آ رہی حالانکہ عام حالات میں انجن کی بہت تیز آواز ہوتی ہے۔
ارشد قریشی کے بقول طیارہ بہت نیچے پرواز کر رہا تھا اور ایسا لگا جیسے طیارہ اُن کے گھر کے واٹر ٹینک کو چھو کر گزرا ہو۔ لیکن اچانک آگ کا ایک بگولہ نکلا اور ہم اپنے گھر کے بائیں جانب بھاگے جہاں طیارہ گرا تھا۔
ارشد قریشی کا کہنا تھا کہ وہاں دھواں اور تپش اتنی زیادہ تھی، جیسے کسی تندور کے سامنے کھڑے ہیں۔ لہذٰا وہ قریب نہیں جا پا رہے تھے۔
اُن کے بقول بعدازاں وہ قریبی گھر کی چھت پر گئے اور وہاں اُنہیں پتا چلا کہ ایک صاحب جن کا نام زبیر ہے، اُنہوں نے طیارہ گرنے کے عین وقت پر چھلانگ لگا کر جان بچائی۔
ارشد قریشی جو خود یوٹیوب چینل چلاتے ہیں نے مزید بتایا کہ اہل محلہ نے سب سے پہلے زبیر کو ریسکیو کیا۔
ارشد کے بقول طیارہ گھروں کے بالکل اُوپر سے گزر رہا تھا اس دوران زبیر ایک گھر کے واٹر ٹینک پر کود گئے بعدازاں اُنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
ارشد قریشی نے بتایا کہ حادثے میں چار سے پانچ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جب کہ 15 سے 18 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ رمضان کے آخری جمعے کے باعث مرد حضرات مساجد میں تھے جب کہ کئی خواتین عید کی خریداری کے لیے باہر تھیں۔ لہذٰا رہائشی علاقے میں جانی نقصان نہیں ہوا۔
'کوئی لوٹ مار نہیں ہوئی، محلے کے نوجوانوں نے بہت کام کیا'
ارشد قریشی نے سوشل میڈیا پر چلنے والی بعض خبروں کی تردید کی کہ جہاز گرتے ہی مسافروں کے ساتھ لوٹ مار شروع ہو گئی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ سراسر غلط ہے اور ان خبروں سے اہل علاقہ کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔
اُن کے بقول جب طیارے میں آگ لگی ہو، قریب جانا ممکن ہی نہ ہو تو کوئی کیسے لوٹ مار کر سکتا ہے۔ جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں وہ اس علاقے سے واقف ہی نہیں ہیں۔
ارشد کا کہنا تھا کہ محلے کے نوجوان اپنے اہل خانہ کے منع کرنے کے باوجود جان پر کھیل کر اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاموں میں جت گئے۔
ان نوجوانوں کی مائیں بچوں کو روک رہی تھیں، وہ چیخ رہی تھیں۔ لیکن پھر بھی وہ جان جوکھوں میں ڈال کر امدادی ٹیموں کی مدد کر رہے تھے۔
ارشد قریشی نے کہا ہم پہلے ہی سوگ میں ہیں ایسے میں ملک اور علاقہ مکینوں کے خلاف باتیں کرنا بہت ہی افسوس ناک ہے۔
جائے حادثہ پر اب بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ کراچی کی ضلعی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ حادثے میں مقامی آبادی کے کسی شخص کی ہلاکت نہیں ہوئی جب کہ چند خواتین معمولی زخمی ہوئی ہیں۔