انسانی حقوق کے ادارے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ فسادات کی وجہ سے کراچی سے ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ گئےہیں۔
اِس بارے میں سندھ حکومت کی سابق ترجمان شرمیلہ فاروقی نے کہا ہے کہ جِن علاقوں میں شرپسندوں کے خلاف رینجرز اور پولیس نے مشترکہ کارروائی کی تھی وہاں سے کچھ لوگوں نےکچھ وقت کےلیےنقل مکانی ضرور کی تھی، لیکن اگر آپ کراچی کے حالات دیکھیں تو وہ لوگ بھی واپس جاچکے ہیں اور حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔
سندھ میں حال ہی میں ایک آرڈیننس کے ذریعے 2001ء سے پہلے والا بلدیاتی نظام بحال کردیا گیا ہے، جِس کی سندھ حکومت سے علیحدہ ہونے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے بھرپور مخالفت کی ہے۔
گذشتہ رات کراچی کے کچھ علاقوں میں دیواروں پر مہاجروں کےلیے ایک الگ صوبہ بنانے کےنعرے بھی درج کیے گئے۔اِس بار ے میں متحدہ قومی موومنٹ کے رُکن اور کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین نے اپنی تمام پبلک میٹنگز میں کھل کر کہا ہے کہ ہم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے۔
اُن کے الفاظ میں: ’جب کہ پورے پاکستان میں صوبوں کی تحاریک چل رہی ہیں، ہم نے کہا ہے کہ ہم سندھی ہیں۔ خود کو سندھ کا بیٹا تصور کرتے ہیں اور ہم سندھ کو بانٹنا نہیں چاہتے۔ آج بھی ہمارا یہی مؤقف ہے۔ لیکن، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت شہری سینٹرز کو اِس طرف دھکیل رہی ہے۔وہ صوبہ ٴسندھ کا بٹوارہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ‘
مصطفیٰ کمال نے سندھی دانشوروں سے کہا کہ وہ مداخلت کریں ، ورنہ، اُن کے بقول، اگر آج کسی کو دیوار سے لگائیں گے تو ایم کیو ایم کب تک لوگوں کو خاموش یا کنٹرول کرسکتی ہے۔‘
شرمیلہ فاروقی کا کہنا تھا کہ سندھ میں کمشنری نظام کی بحالی کا کراچی کے فسادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اُنھوں نے کہا کہ یہ پیپلز پارٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا اور اِس نظام کی بحالی کو کسی طبقے کے خلاف سازش نہیں سمجھنا چاہیئے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کسی نظام کی ردوبدل کو کسی ٕمخصوص مفاد یا زبان کے ساتھ نہیں ملایا جانا چاہیئے، اور یہ کہ، ’اردو بولنے والے ہمارے بھائی ہیں۔ یہ کہنا’بالکل غلط بات ہے‘ کہ یہ کسی کے خلاف کوئی سازش ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں جتنے لوگ رہتے ہیں خواہ اُن کی زبان کچھ بھی ہو، وہ کراچی کے شہری ہیں، صوبہٴ سندھ کے شہری ہیں اور ظاہری بات ہے ہم نے کبھی پیپلز پارٹی کی جانب سے ایسا نہ کبھی تاثر دیا ہے اور نہ کبھی ہم نے اِس قسم کی کوئی چیز کی ہے جِس سے یہ سامنے آئے کہ ہم شاید کسی طبقے یا کسی ایک زبان بولنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں یا کبھی ہم نے کی ہے۔‘
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ترجمان، زاہد خان نے کہا ہے کہ نظام کے بارے میں اختلافِ رائے ہر پارٹی کا جمہوری حق ہے اور اِس کا اظہار جمہوری طریقے سے ہی کرنا چاہیئے۔
زاہد خان کا کہنا تھا کہ اگر إِس بات کو بنیاد بنا کر اشتعال پیدا کیا جائے یا حالات خراب کیےجائیں تو یہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے مفاد میں نہیں ہوگا۔اُن کے بقول، پاکستان کی جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ کمشنری نظام کو اچھا سمجھتی ہیں۔ سب کا ایک ہی نقطہٴ نظر ہے کہ کمشنری نظام بحال ہونا چاہیئے۔
اے این پی کے ترجمان کے بقول، جنرل (ر) پرویز مشرف نےپاکستان پر قبضہ کیا ہوا تھا اور وہ اپنی مرضی کا نظام لے کر آیا تھا، جو لوگوں کو قبول نہیں تھا۔ لیکن، اِس پر کسی نے کوئی جلاؤ گھیراؤ کی سیاست نہیں کی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: