بھارت کے سرکردہ سیاست دان شرد گووند راؤ پوار نے دو روز قبل اچانک اعلان کیا کہ وہ نیشنل کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدارتی عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اُن کے اس اعلان سے جہاں اُن کے سیاسی حریفوں کو حیرت ہوئی وہیں پارٹی ارکان اور حامیوں کے لیےبھی یہ ایک چونکا دینے والا فیصلہ تھا۔
شرد پوار نے منگل کو ممبئی میں ایک تقریب کے دوران پارٹی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد تقریب میں موجود کارکنوں نے نعرے بازی شروع کر دی تھی۔پارٹی کے رکنِ اسمبلی جیانت پاٹل رو پڑے تھے جب کہ ان سمیت کئی پارٹی رہنماؤں اور ارکانِ اسمبلی نے کہا تھا کہ وہ ایوان کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے۔
شرد پوار پر پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے دوران ہی اُن کے بھتیجے اور ممکنہ سیاسی جانشین اجیت پوار نے یہ اعلان کیا کہ شرد پوار اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے کچھ دن کی مہلت مانگی ہے۔
اجیت پوار اور شرد پوار کی صاحبزادی سپریا سولے نے میڈیا کو بتایا کہ شرد پوار نے اپنا فیصلہ کر لیا ہےلیکن وہ اس پر دوبارہ غور کے لیے وہ دو یا تین دن کی مہلت چاہتے ہیں لیکن وہ اس پر غور اس صورت میں کریں گے جب ان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنے پر بیٹھے کارکن گھروں کو لوٹ جائیں گے۔
سپریا سولے کا یہ بھی کہنا تھا کہ شرد پوار نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ اُن کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد پارٹی رہنماؤں کی جانب سے عہدے چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوگیا ہے وہ بھی رک جائے گا اور مزید کوئی پارٹی رہنما اپنا عہدہ نہیں چھوڑے گا۔
خیال رہے کہ 82 سالہ شرد پوار نے ملک کی بڑی سیاسی جماعت ’کانگریس پارٹی‘ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد 10 جون 1999 کو اپنی الگ سیاسی جماعت ’نیشنل کانگریس پارٹی‘ (این سی پی) کی بنیاد رکھی تھی اور گزشتہ 23 سال سے وہ اس کی صدارت کر رہے ہیں۔
انہوں نےمستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے جب نئی نسل کو پارٹی کی قیادت کرنی چاہیے۔
کیا شرد پوار نیشنل کانگریس پارٹی کو تقسیم سے بچانا چاہتے ہیں؟
شرد پوار کے این سی پی کی صدارت کے عہدے سے دستبردارہونے کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بھارت کے سیاسی حلقوں میں اُن کے سیاسی جانشین اجیت پوار کے نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف جھکاؤ کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
اجیت پوار ریاست مہاراشٹرا کے نائب وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ بی جے پی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار گزشتہ ماہ اُس وقت بھی ہوا تھا جب انہوں نے ممبئی میں این سی پی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی تھی کہ وہ کہیں اور مصروف ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر شرد پوار این سی پی کی صدارت کے عہدے سے واقعی دستبردار ہو گئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ پارٹی کی باگ ڈور اجیت پوار کے ہاتھوں میں آ جائے گی اور اس طرح پارٹی کی بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔
بی جے پی کے رہنما کھلے عام اجیت پوار کو راستہ بدلنے کے لیے اکسارہے ہیں لیکن صوبائی مخلوط حکومت میں شامل ان کے اتحادی شیو سینا کے سربراہ اور مہاراشٹرا کے وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شنڈے نے خبر دار کیا ہے کہ وہ اس کی شدید مخالفت کریں گے۔
شنڈے کی قیادت میں کام کرنےوالے شیو سینا کا دھڑا پہلے ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ اگر اجیت پوار کی قیادت میں این سی پی کے رہنماؤں کا گروپ بی جے پی میں شامل ہوتا ہے تو ان کی جماعت مہاراشٹرا کی صوبائی حکومت سے علیحدہ ہو جائے گی۔
اجیت پوار 23نومبر 2019کو مہاراشٹرا کے نائب وزیر ِ اعلیٰ بنے تھے اس وقت بی جے پی نے دیوندر فڈنویس کی قیادت میں ریاست میں حکومت قائم کی تھی۔ اُن کا یہ اقدام شرد پوار کے لئے سبکی کا باعث بنا تھا کیوں کہ وہ بی جے پی اور اس کی پالیسیوں کی شدید ناقد رہے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ فڈنویس کی قیادت میں قائم ہونے والی یہ حکومت 28 نومبر 2019کو ہی ریاستی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی حمایت کھونے کے سبب گر گئی تھی۔
مہاراشٹرا اور دہلی میں سیاسی تبدیلی کی پیش گوئی
شرد پوار نے پارٹی کے قریبی ساتھیوں کو اپنے فیصلے سے قبل اعتماد میں لیا تھا یا نہیں؟ اس بارے میں صورتِ حال واضح نہیں ہے۔
اجیت پوار کے علاوہ شرد پوار کی بیٹی سپریا سولے کو بھی اپنے والد کی سیاسی جانشین کے طور پر دیکھا جا رہاہے جنہوں نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ کچھ روز کے دوران دو بڑے سیاسی دھماکے ہوں گے۔ ایک دہلی میں اور دوسرا مہاراشٹرا میں۔
اس سے قبل بی جے پی کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ اگر اجیت پوار اپنے چچا شرد پوار کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ان کا خیر مقدم کریں گے۔
اس سلسلے میں قیاس آرائیوں کو اُس وقت تقویت ملی جب نیشنل کانگریس پارٹی کے چند ارکانِ اسمبلی نے برملا یہ اعلان کیا کہ اجیت پوار جو بھی فیصلہ کریں گے وہ اُن کا ساتھ دیں گے۔
شرد پوار مہاراشٹرا کے چار بار وزیرِ اعلیٰ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ وفاقی حکومت میں وزیرِ دفاع اور وزیرِ زراعت جیسی اہم وزارتوں کے مرکزی وزیر رہ چکے ہیں۔ بھارت کی قومی سیاست میں ان کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اپنی قائم کردہ نیشل کانگریس پارٹی کی صدارت چھوڑنے کا اعلان انہوں نے کیوں کیا؟ اس بارے میں سیاسی مبصرین متضاد رائے رکھتے ہیں۔
بھارت کے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کہ شرد پوار نہیں چاہتے کہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کےسوال پر ان کی پارٹی تقسیم ہو ۔
ڈاکٹر ارون کمار کا یہ بھی کہنا تھا کہ شرد پوار کے صدارت سے دستبردار ہونے کی صورت میں پارٹی کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے سینئر رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ممکن ہے اس کمیٹی کا فیصلہ اجیت پوار کے حق میں نہ ہو اور قرعہ فال ان کی بیٹی سپریا سولے کے نام نکلے۔ ایسی صورت میں اجیت پوار سائیڈ لائن ہو جائیں گے۔ اگر انہوں نے بی جے پی کی راہ لی تو بھی پارٹی پر اس کا زیادہ اثر نہیں رہے گا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اجیت پوار کے این سی پی سےالگ ہونے اور بی جے پی میں جانے کی اطلاعات کے سبب نیشنل کانگریس پارٹی میں پہلے ہی ہلچل ہے جب کہ کارکنوں کا ایک وسیع حلقہ ان سے ناراض ہے۔
’ایک تیر سے کئی شکار‘
اجیت پوار کارکنوں کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کہہ چکے ہیں کہ ان کے چچا شرد پوار پارٹی میں نئی قیادت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں لیکن پارٹی کا نیا لیڈر اُن ہی کی رہنمائی میں کام کرے گا۔
ڈاکٹر ارون کمار نے کہا کہ اس ساری صورتِ حال سے نیشنل کانگریس پارٹی میں شرد پواد کی مقبولیت اور جماعت پر گرفت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ان کے بقول اجیت پوار کو بھی معلوم ہو گیا ہوگا کہ اگر وہ پارٹی سے وفاداری ختم کرتے ہیں تو شاید اُن کے اس فیصلے کو نیشنل کانگریس پارٹی کے اندر مقبولیت حاصل نہیں ہوگی بلکہ انہیں مزاحمت کا سامنا ہوگا۔
مہاراشٹرا کے کثیر الاشاعت مراٹھی اخبار 'لوک ستا' کے ایڈیٹر گریش کبیر نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ شرد پوار نے این سی پی کی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرکے ایک تیرسے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے تحریر کیا کہ اگر وہ یہ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں تو پارٹی میں ان کی حیثیت ہمیشہ ایک ایسے قائد کی رہے گی جو خود کو پارٹی کے روزمرہ امور میں ملوث نہیں کرتا لیکن ان کا منصب انہیں وہ آزادی دے گا جو وہ خود کو عوام اور ملک کے سامنے ایک ایسے صاحبِ تدبیر سیاست دان کے طور پر پیش کرنے کے لیے چاہتے ہیں جو اپنی ہی قائم کردہ جماعت کی قیادت چھوڑ سکتا ہے۔
اپوزیشن میں اتحاد کی کوششں
شرد پوار بھارت کے اُن چوٹی کے سیاست دانوں میں شامل ہیں جنہوں نے شیو سینا جیسی دائیں بازو کی جماعت اور کانگریس اور این سی پی کے درمیان اتحاد کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں ریاست مہاراشٹرا میں مہا وِکاس اگھاڑی اتحاد کی مخلوط حکومت قائم ہوسکی ۔
وہ اب اس اتحاد کو ملک میں 2024میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے وسعت دینے کی کوششوں میں ہیں تاکہ بی جے پی کا ان انتخابات میں ملکی سطح پر فعال مقابلہ کیا جاسکے۔
مہا وِکاس اگھاڑی یا مہاراشٹرا وِکاس اگھاڑی (مہاراشٹرا ترقی محاذ) ریاستی سطح کا ایک اتحاد ہے جسے مہاراشٹرا میں 2019 میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد شیو سینا کے لیڈر ادھو ٹھاکرے، این سی پی کے شرد پوار اور کانگریس کی سونیا گاندھی کی قیادت میں قائم کیا گیا تھا۔
اس اتحاد کو قومی سطح کی جماعتوں سماج وادی پارٹی، مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور چند دوسرےعلاقائی اور قومی سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔
اخبار 'لوک ستا' کے ایڈیٹر گریش کبیر کا کہنا ہے کہ شرد پوار کا اعلیٰ رتبہ ان کے لیے یہ گنجائش اور اختیار پیدا کر دے گا کہ وہ بی جے پی مخالف جماعتوں کو یکجا کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ریاستی اسمبلی کے ساتھ ساتھ عام انتخابات بھی عنقریب ہونے والے ہیں محض ایک پارٹی کا سربراہ ہونے کے بجائے وہ ایک آزاد اور سیاسی سطح پر غیر جانب دار شرد پوار کے طور پر حزبِ اختلاف کے لیے زیادہ طاقتور ثابت ہو سکتے ہیں۔
گریش کبیر لکھتے ہیں کہ شرد پوار کے اس اقدام کا ایک اور نہ نظر آنے والا ہدف، جو غیر ارادی ہرگز نہیں ہے، این سی پی کے رہنماؤں کا وہ گروہ ہے جس کے بارے میں یہ افواہ ہے کہ وہ بی جے پی سے رابطے میں ہیں۔
ان کے بقول اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشتبہ ان کا بھتیجا اجیت پوار ہے۔ این سی پی کے اس ناراض نوجوان کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے چچا کے خلاف بغاوت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور بظاہر اپنے نامور چچا کی پرچھائیں سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں تھا۔
گریش کبیر کا کہنا تھا کہ اجیت کے ساتھ چند اور نام لیے جا رہے تھے اور ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ بغاوت کرنے والے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرح سے اجیت پوار کے لیے این سی پی میں پریشان یا مایوس ہونے کا ہر جواز موجود تھا۔ اگرچہ وہ این سی پی کے بانی کا خاندانی نام رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں میں شاید ہی کوئی اور چیز مشترک ہو۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ انہیں ہمیشہ شرد پوار کی موجودگی میں ثانوی کردار ہی ادا کرنا پڑے گا۔
شرد پوار کو نیشنل کانگریس پارٹی میں اہم فیصلوں کا اختیار حاصل
اور ایک سیاسی تجزیہ کاراور روزنامہ ’دی ہندوستان ٹائمز‘ کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شرد پوار اگر این سی پی کےصدر کے عہدے کو چھوڑ بھی دیتے ہیں تب بھی وہ سونیا گاندھی اور ایچ ڈ ی دیوے گوڑا کی طرح پارٹی میں مقتدر حیثیت کے مالک رہیں گے اور اہم فیصلے کرتے رہیں گے۔
ان کے مطابق شرد پوار کی صحت اچھی نہیں رہتی اور عمر کے لحاظ سے بھی اُن کے مقابلے میں اجیت جوان ہیں اور پارٹی میں ان کی ایک مضبوط انتظامی موجودگی ہے ۔ اگر شرد پوارواقعی صدارت کا عہدہ چھوڑ دیتے ہیں تو اجیت ان کی زندگی میں سپریا سولے سے مساوات کےساتھ اپنی پوزیشن مستحکم بنا سکتے ہیں لیکن اس بارے میں ہم فی الوقت کوئی حتمی رائےقائم نہیں کرسکتے۔
ونود شرما نے 2024 کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا کہ شرد پوار کی نیشنل کانگریس پارٹی کی مہاراشٹرا وکاس اگھاڑی سے علیحدگی بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا جب کہ شرد پوار بھی اس سے بے خبر نہیں ہیں۔