پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا قرض کاپروگرام سات ماہ سے تعطل کا شکار ہے اور اب اس پروگرام کے نامکمل ہی ختم ہو جانے کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ایک جانب آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو تین ماہ سے کوئی حوصلہ افزا اشارہ نہیں ملا جب کہ دوسری جانب 30 جون کو پروگرام کےختتام پذیر ہونے کی تاریخ قریب آ رہی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پروگرام مکمل نہ ہوا تو معاشی بے یقینی کے بادل اور بھی گہرے ہو جائیں گے۔ ایسے میں یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے دیوالیہ ہونے جیسے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض پروگرام بحال ہونا پاکستان کے معاشی استحکام اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ اگر یہ پروگرام بحال نہ ہوا تو ملک میں معاشی بے یقینی اور بھی بڑھ جائے گی۔ تمام اسٹیک ہولڈرز اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے قرض کے پروگرام کا بحال ہونا ضروری ہے۔
ان کے مطابق اس وقت بے یقینی پہلے سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کار ملک میں سرمایہ لانے سے گریز کررہے ہیں جس کے نتیجے میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اور بھی محدود ہو گئے ہیں جن کی اس وقت پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پروگرام بحال ہوتا ہے تب ہی معاشی افراتفری اور بے یقینی کے بادل کسی حد تک کم ہوں گے اور اس کے بعد استحکام کی جانب پیش رفت شروع ہو گی۔ اگر یہ پروگرام بحال نہیں ہوتا تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے سال 2019 میں شروع ہونے والا قرض کا پروگرام ملک کے لیے 23 واں معاشی پروگرام ہے۔
اس پروگرام کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر چھ ارب ڈالر کا قرض ملنا تھا۔ اس کے لیے آخری بار اٹھواں جائزہ مکمل ہونے پر پاکستان کو ایک ارب 70 کروڑ ڈالر قرض کی رقم گزشتہ برس جون میں ملی تھی جس کے بعد اکتوبر میں اگلا جائزہ اجلاس ہونا تھا۔
اس وقت سے یہ پروگرام تعطل کا شکار ہے جب کہ اس پروگرام کے تحت ابھی پاکستان کو مزید دو ارب 20 کروڑ ڈالر ملنے باقی ہیں۔
یہ دو ارب 20 کروڑ ڈالر حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے مختلف کڑی شرائط کا سامنا ہے جب کہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے مزید چھ ارب ڈالرز کے حصول کی شرط بھی رکھی گئی تھی۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس آپشن محدود ہیں لیکن اس پروگرام کو ختم کرنے کے لیے اور اس کے ذریعے پاکستان کے لیے مزید فنڈز کا راستہ کھولنے کے لیے حکومت کےلیےآئی ایم ایف کے ہر مطالبے کو پورا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں بجٹ کی دستاویزات کا اشتراک اور پروگرام کے دوران ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے مزید بیرونی فنڈز کا بندوبست کرنا بھی شامل ہے۔
ایک اور تجزیہ کار اور وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے بہترین آپشن آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے ہی میں ہے۔ پروگرام کو مکمل نہ کرنے سے پاکستان کے لیے بین الاقوامی ادائیگیوں کے چیلنج پر قابو پانا مشکل ہوگا اور اس کے ساتھ ہی ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بھی مستقل طور پر رہے گا۔ اس دباؤ کی وجہ سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی توقع ہے اور یوں ملک کے اندر مہنگائی مسلسل بڑھتی رہے گی۔
ان کے مطابق اس صورتِ حال میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف سے نویں جائزے کی منظوری جُز وقتی سہارا ثابت ہوسکتی ہے۔
کیا پاکستان کے پاس کوئی آپشن ہے؟
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے پاس یہی متبادل بچتا ہے کہ چین، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک سے نہ صرف ڈپازٹس بلکہ کمرشل فنانسنگ کے لیے مدد حاصل کی جائے۔
وہ کہتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر غیرملکی امداد سےجو منصوبے چل رہے ہیں انہیں تیز کیا جائے تاکہ ان کے لیے امداد تیزی سے ملے۔ اور پھر درآمدات پر پابندیاں مزید کچھ عرصے تک برقرار کھی جائیں گی تاکہ ڈالر باہر کم سےکم جائے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ اس قسم کے اقدامات سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ تو مثبت ہو رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ درآمدات روک کر ڈالر کا آؤٹ فلو روکنا کوئی قابل ستائش اقدام نہیں کیوں کہ اس سے معیشت رُک گئی ہے اور معاشی ترقی کا عمل سست ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس پاکستانی معاشی ترقی کی رفتار صفر کے قریب ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر سلمان شاہ کا خیال ہے کہ درحقیقت چین بھی اسی بات پر زور دے رہا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہی بحال ہونا چاہیے۔ اگر ایک بار یہ پروگرام بحال ہو جائے تو پھر چین کی جانب سے پاکستان کو کافی معاشی مدد مل سکتی ہے کیوں کہ خود چین کے بہت سارے منصوبے پاکستان میں زیرِ تکمیل ہیں۔
ڈاکٹر سلمان شاہ کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا واحد متبادل لگ بھگ چھ ارب ڈالر کا بندوبست ہو گا جو نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا سکے گا بلکہ پاکستان کی معیشت کے ارد گرد موجود غیر یقینی کی موجودہ سطح کو بھی کم کر دے گا۔ البتہ وہ بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قاصر ہیں کہ انتہائی کم وقت میں آخر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
ایک اور معاشی تجزیہ کار ارمین سورانی نے بتایا کہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے معاشی اشاریے اور پھر اپریل میں ٹیکس کی مایوس کن وصولی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں بھی ملک میں مزید مالیاتی دباؤ بڑھے گا اور یہ صورتِ حال نویں جائزے کے اختتام کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا بجٹ خسارہ تیسری سہ ماہی کے اختتام پر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 3.7 فی صد تک ہوچکا ہے جو گزشتہ سال کے مجموعی خسارے کے قریب تر ہے اور اس میں بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں 52 فی صد سے زیادہ اخراجات کا ہے۔