پاکستان اور بھارت کی حدود میں سکھوں کے مذہبی مقام گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور تک زائرین کی رسائی کے لیے ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں۔
پاکستان کے حکام صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال میں واقع کرتار پور گوردوارے کے اطراف راہداری اور اس سے منسلک منصوبوں کی تعمیر کے لیے مزید زمینیں حاصل کر رہے ہیں جس پر نواحی دیہات کے رہائشیوں کو خدشات ہیں۔
دربار صاحب کرتار پور سے ملحق صدیوں پرانے گاوں دودھہ کے رہائشیوں کا الزام ہے کہ حکومت بغیر کسی معاوضے کے ان کی زمین حاصل کر رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت تاحال گاؤں کی 1500 ایکٹر اراضی حاصل کر چکی ہے اور گاؤں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں 60 ہزار روپے فی ایکٹر کا نقصان ہو رہا ہے۔
'زمین لینی ہے تو پیسے تو دیں'
دودھہ گاؤں کے ایک کاشت کار عبدالغفار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا خاندان ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم سے قبل سے یہاں آباد ہے۔
عبدالغفار کا کہنا تھا کہ ایک سیکورٹی ادارے کے افسر ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں زمین چاہیے۔ اس کے فوری بعد ان کے بقول سرکاری مشینری کے ذریعے تیار فصلوں اور پھل دار درختوں کا خیال رکھے بغیر زمین پر جھنڈے لگا کر زمین کی حد بندی اور نشان دہی کردی جاتی ہے۔
عبدالغفار کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ سیکورٹی افسر نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ انہیں زمین کا معاوضہ دیا جائے گا لیکن مہینوں گزر جانے کے باوجود معاوضہ تو درکنار کھڑی فصلوں کے نقصان کا بھی ازالہ تک نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا اور ان جیسے دیگر کاشت کاروں کا 60 ہزار فی ایکڑ تک کا نقصان ہو رہا ہے ۔
'چپ ہوجاؤ! پیسے مل جائیں گے'
گوردوارے کے نزدیک واقع ایک اور گاؤں پکھوکھا کے ایک کسان عبدالمجید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کمزور لوگ ہیں، طاقت ور کے سامنے احتجاج نہیں کر سکتے لیکن سالہا سال کی کمائی اور بزرگوں کی نشانی یوں برباد ہوتے بھی نہیں دیکھ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیسوں کی بات کریں تو کہا جاتا ہے "چپ ہوجاؤ! پیسے مل جائیں گے۔" لیکن ان کے بقول یہ نہیں پتا کہ کب ملیں گے؟
دودھہ گاوں کے رہائشی محمد خلیق کہتے ہیں کہ ان کی 10 ایکڑ زمین حکومت نے حاصل کر لی ہے جب کہ چار ٹیوب ویل بھی اکھاڑ دیے ہیں۔
ان کے بقول ٹھیکیدار آتا ہے، نشان دہی کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ معاوضے سے متعلق کوئی واضح جواب نہیں دیتا۔
کرتارپور راہداری کھولنے کے لیے تحریکِ انصاف کی حکومت خاصی سرگرم ہے اور علاقے میں تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔
پاکستان کی حدود میں دریائے راوی پر پل کی تعمیر اور بھارت کی سرحد تک ساڑھے چار کلومیٹر سڑک کی تعمیر کے لیے حکومت تیزی سے مقامی کاشت کاروں سے زمین حاصل کر رہی ہے۔
'حکومت قانون کے مطابق معاوضہ دے گی'
نارووال کے ڈپٹی کمشنر وحید اصغر کہتے ہیں اب تک دربار کے نواح میں واقع سات دیہات کی 1493 ایکٹر سے زائد اراضی حاصل کی جاچکی ہے جب کہ مزید 1500 ایکٹر اراضی درکار ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زمین کا حصول قانون کے مطابق کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے حصولِ اراضی ایکٹ 1894ء موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں حکومت اسی ایکٹ کے تحت زمین حاصل کرتی ہے اور متاثرہ افراد کوقانون کے مطابق معاوضہ دیا جاتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ زمین کی لاگت کا تخمینہ حکومت کو بھجوا دیا ہے جب کہ حکومت کاشت کاروں کو ان کی تیار فصلوں کے مارکیٹ ریٹ سے 15 فی صد زائد ادائیگی کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اگر معاوضے کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو متاثرہ افراد کو سود کے ساتھ ادائیگی کی جائے گی۔
کسانوں کو بے دخل نہ کرنے کی اپیل
لیکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ حکومت کو کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔
ان کے بقول سیاسی جماعتوں اور مقامی نمائندوں کو اس ضمن میں آواز اٹھانی چاہیے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ عام طور پر حکومت زمین حاصل کر کے اس کا بہت کم معاوضہ دیتی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ اس معاملے میں حکومت کیا کرتی ہے۔
سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے اخری ایام کرتارپور میں گزارے تھے جہاں وہ کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔
یہ جگہ پاکستان کے ضلع نارووال اور بھارت کے ضلع گورداسپور کے قریب پاک بھارت بین الاقوامی سرحد سے چند کلومیٹر دور پاکستانی علاقے میں موجود ہے۔
کرتار پور دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کے لیے بہت مقدس مقام ہے۔
بھارت میں آباد سکھوں کی سہولت کے لیے گزشتہ سال پاکستان اور بھارت نے بین الاقوامی سرحد سے گوردوارے تک راہداری بنانے کا اعلان کیا تھا تاکہ زائرین براہِ راست بھارت سے گوردوارے جاسکیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باوجود 14 مارچ کو اس معاملے پر دونوں ملکوں کے متعلقہ حکام کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا جس کا اگلا دور دو اپریل کو ہونا ہے۔