واشنگٹن —
افغان صدر حامد کرزئی اِس ہفتے واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ وہ آئندہ سال امریکہ کے زیادہ تر فوجیوں کے انخلا کے بعد مستقبل کے تعلقات کے بارے میں صدر براک اوباما سےبات چیت کریں گے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے محکمہٴخارجہ سے متعلق نامہ نگار، اسکاٹ اسٹیرنز نے اِس دورے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت سےقبل صدر کرزئی نے گذشتہ ماہ امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا سے ملاقات کی تھی۔
متوقع طور پر یہ مذاکرات اگلے سال 60000 بقیہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے تناظر میں امریکہ افغان تعلقات سے متعلق معاملات پر مرکوز رہیں گے۔
محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریا نُلینڈ کے خیال میں باہمی تعلقات سے متعلق سارے امور زیر بحث آئیں گے، جن میں سلامتی کے امور، اور عبوری سیاسی دور کے معاملات شامل ہوں گے۔
ترجمان نے کہا کہ 2014ء میں افغانستان میں انتخابات ہونے والے ہیں، جب کہ افغانستان کے لیے جاری معاشی امداد، سلک روڈ حکمت عملی اور علاقائی یکجہتی کی اسٹریٹجی کے امور شامل ہیں۔ ’اس لیے، جب صدر کرزئی یہاں ہوں گے تو بہت سی باتوں پر گفتگو ہو سکتی ہے، اور یہ کہ، ہم امریکہ میں اُن کی آمد کے منتظر ہیں‘۔
طالبان جنگجو کرزئی حکومت کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں، اور اب بھی اُن کا ملک کے ایک بڑے علاقے پر کنٹرول ہے، خصوصی طور پر وہ علاقہ جس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔
مالو انوسنٹ ’کیٹو انسٹی ٹیوٹ‘ میں ایک تجزیہ کار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر براک اوباما کی دوسری مدتِ صدارت افغانستان کےبارے میں سوچ میں تبدیلی کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
افغانستان اور پاکستان نے کچھ طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں تعاون جاری رکھا ہوا ہے، تاکہ معتدل خیالات کے حامل مزید عناصر کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں۔
عمال فیضی افغان حکومت کے ترجمان ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں توقع ہے کہ ان طالبان قیدیوں کی رہائی سے افغانستان کے امن عمل میں مدد ملے گی، اور اس کے باعث دیگر طالبان کا حوصلہ بڑھےگا کہ وہ بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کی خاتون ترجمان، نُلینڈ کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا آغاز ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک لڑائی کے بعد، اب اس طرح کی مفاہمت کی کوششوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔
اوباما انتظامیہ 2014ء کے بعد بھی سلامتی کو یقینی بنانے کی غرض سے افغانستان میں اپنی موجودگی باقی رکھنے کے حق میں ہے، جس میں انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں تربیت اور حمایت فراہم کرنا شامل ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے محکمہٴخارجہ سے متعلق نامہ نگار، اسکاٹ اسٹیرنز نے اِس دورے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت سےقبل صدر کرزئی نے گذشتہ ماہ امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا سے ملاقات کی تھی۔
متوقع طور پر یہ مذاکرات اگلے سال 60000 بقیہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے تناظر میں امریکہ افغان تعلقات سے متعلق معاملات پر مرکوز رہیں گے۔
محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریا نُلینڈ کے خیال میں باہمی تعلقات سے متعلق سارے امور زیر بحث آئیں گے، جن میں سلامتی کے امور، اور عبوری سیاسی دور کے معاملات شامل ہوں گے۔
ترجمان نے کہا کہ 2014ء میں افغانستان میں انتخابات ہونے والے ہیں، جب کہ افغانستان کے لیے جاری معاشی امداد، سلک روڈ حکمت عملی اور علاقائی یکجہتی کی اسٹریٹجی کے امور شامل ہیں۔ ’اس لیے، جب صدر کرزئی یہاں ہوں گے تو بہت سی باتوں پر گفتگو ہو سکتی ہے، اور یہ کہ، ہم امریکہ میں اُن کی آمد کے منتظر ہیں‘۔
طالبان جنگجو کرزئی حکومت کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں، اور اب بھی اُن کا ملک کے ایک بڑے علاقے پر کنٹرول ہے، خصوصی طور پر وہ علاقہ جس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔
مالو انوسنٹ ’کیٹو انسٹی ٹیوٹ‘ میں ایک تجزیہ کار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر براک اوباما کی دوسری مدتِ صدارت افغانستان کےبارے میں سوچ میں تبدیلی کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
افغانستان اور پاکستان نے کچھ طالبان قیدیوں کی رہائی کے بارے میں تعاون جاری رکھا ہوا ہے، تاکہ معتدل خیالات کے حامل مزید عناصر کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں۔
عمال فیضی افغان حکومت کے ترجمان ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں توقع ہے کہ ان طالبان قیدیوں کی رہائی سے افغانستان کے امن عمل میں مدد ملے گی، اور اس کے باعث دیگر طالبان کا حوصلہ بڑھےگا کہ وہ بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کی خاتون ترجمان، نُلینڈ کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا آغاز ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک لڑائی کے بعد، اب اس طرح کی مفاہمت کی کوششوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔
اوباما انتظامیہ 2014ء کے بعد بھی سلامتی کو یقینی بنانے کی غرض سے افغانستان میں اپنی موجودگی باقی رکھنے کے حق میں ہے، جس میں انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں تربیت اور حمایت فراہم کرنا شامل ہے۔