بھارتی کشمیر میں 23برس سے جاری پُر تشدد تحریکِ مزاحمت کے دوران پیش آنے والے اپنی نوعیت کےتیسرے واقعے میں ایک ہندو عسکری کمانڈر کو جسے فوج نے گذشتہ روز مشرقی ضلع کشتواڑ کے گھنے جنگل میں ہونے والی جھڑپ کے دوران ہلاک کیا تھا، مقامی مسلمانوں نے بدھ کو اپنے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا۔
ہلاک شدگان جنگجو سبھاش کمار شان عرف کامران کے بارے میں عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین میں 2001ء میں شامل ہوا تھا اور آج کل اِس کا ڈپٹی ڈویژنل کمانڈر تھا۔
وہ سات فوجداری مقدمات میں مفرور تھا جِن میں پانچ قتل کے کیس بھی شامل ہیں۔ نیز، ایسی کارروائیوں میں بھی شامل تھا جِن کے دوران تین بھارتی فوجی اور تین شہری ہلاک ہوئے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان عسکری کمانڈر کے والدین نے اُس کی لاش لینے سےانکار کردیا تھا کیونکہ اُن کی اطلاع کے مطابق اُس نے اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرلیا تھا۔
سبھاش کے والد جیون لال نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ ہندو عقائد کے مطابق اپنے بیٹے کی آخری رسومات انجام دینے سےقاصر تھا ، کیونکہ کئی برس پہلے اُسے یہ خبر پہنچائی گئی تھی کہ اُس کے بیٹے نے اپنا مذہب ترک کیا ہے اور اب وہ مسلمان ہوگیا ہے۔
اگرچہ اِس دعوے کی کہیں سے تصدیق نہیں ہوسکی، مقامی مسلمانوں کی استدعا پر پولیس نے معیت کو اُن کے سپرد کردیا جِس کے بعد اسلامی روایات کے مطابق سبھاش کو کشتواڑ کے مسلم قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں جاری پُرتشدد تحریکِ مزاحمت کے دوران بہت ہی کم مثالیں ایسی ملتی ہیں جب غیر مسلموں کو مسلمان عسکریت پسندوں کے دوش بدوش لڑتے ہوئے پایا گیا۔