سہیل انجم
مرکز میں برسراقتدار جماعت بی جے پی میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے معاملات کے انچارج رام مادھو نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے حکومت کے مذاکرات کار دنیش شرما بات چیت کے خواہشمند تمام فریقوں سے بات چیت کریں گے۔
انھوں نے ایک نیوز چینل سی این این نیوز 18 کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر علیحدگی پسند حریت راہنما بھی آگے آئیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان سے بھی بات کریں گے۔
حریت کانفرنس نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
رام مادھو نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی کشمیر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو مختلف سرگرمیاں جاری تھیں وہ بدستور جاری رہیں گی۔ جن میں فوجی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں سے نمٹنا بھی شامل ہے۔
ادھر دنیش شرما نے کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اور اس کی ترجیح کشمیری نوجوانوں اور عسکریت پسندوں کو انتہاپسندی سے روکنا اور کشمیر کو بھارت کو شام بننے سے بچانا ہے۔ وہ ایک نیوز ایجنسی آئی اے این ایس سے بات کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ میرا مشن تشدد کا خاتمہ اور سب سے بات کرنا ہے۔ جو بھی امن میں یقین رکھتا ہے اور اس کے لیے کچھ تجاویز پیش کرتا ہے، میں سب کو سننے کے لیے تیار ہوں۔ وہ ایک عام اسٹوڈنٹ، عام نوجوان، ایک رکشے والا اور ایک ٹھیلے والا بھی ہو سکتا ہے۔
شرما نے مزید کہا کہ اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو وہاں کی صورت حال یمن، شام اور لیبیا جیسی ہو جائے گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے نوجوانوں سے رابطہ کرنے کا طریقہ سوچ لیا ہے تو انھوں نے کہا کہ وہ طریقہ کار پر غور کر رہے ہیں۔
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ان کے تقرر کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کشمیری عوام کی خواہشیں جاننا چاہتے ہیں۔
علیحدگی پسند حریت کانفرنس کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کرتی ہے اور وہاں جاری مہم کو تحریک آزادی قرار دیتی ہے۔ جبکہ بھارتی حکومت اسے دہشت گردی بتاتی ہے۔
پاکستان بھی استصواب رائے کا مطالبہ کرتا ہے اور مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس نے دنیش شرما کے تقرر کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔