دارالحکومت سرینگر سے لگ بھگ 70 کلومیٹر دور گگن گیر میں ایک سرکاری منصوبے پر حملہ کیا گیا ہے۔ حملہ سرینگر ۔لیہہ شاہراہ پر زیرِ تعمیر ایک ٹنل پر کام کرنے والے مزدوروں پر کیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک ڈاکٹر اور چھ مزدور شامل ہیں۔ جو لوگ اس گھناؤنی حرکت میں ملوث ہیں انہیں نہیں بخشا جائے گا: وزیرِ داخلہ این آئی اے کی ٹیم تحقیقات کے لیے پیر کو صبح نئی دہلی سے سرینگر پہنچ گئی ہے۔ |
سرینگر — بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی ایک خصوصی ٹیم جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر سے لگ بھگ 70 کلو میٹر شمال میں واقع گگن گیر پہنچ گئی ہے جہاں اتوار کی شام مسلح افراد کے حملے میں سات افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔
یہ حملہ سرینگر ۔لیہہ شاہراہ پر زیرِ تعمیر ایک ٹنل پر کام کرنے والے مزدوروں پر کیا گیا اور اس میں دو افراد موقعے ہی پر ہلاک ہو گئے تھے جب کہ شدید زخمی پانچ افراد اسپتال میں چل بسے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک ڈاکٹر اور چھ مزدور شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والوں کی شناخت ڈاکٹر شاہ نواز، فہیم نذیر، کلیم احمد، محمد حنیف، ششی ابرول، انیل شکلا اور گرمیت سنگھ کے طور پر کی گئی۔
این آئی اے کی ٹیم پیر کو صبح نئی دہلی سے سرینگر پہنچی تھی۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارتِ داخلہ نے واقعے کی تحقیقات کی ذمہ داری این آئی اے کو سونپی ہے۔
بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ "جو لوگ اس گھناؤنی حرکت میں ملوث ہیں انہیں نہیں بخشا جائے گا۔ وہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے سخت ترین جواب کا سامنا کریں گے۔‘‘
اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی انسپکٹر جنرل وی کے بردھی کی مقامی پولیس کے ہمراہ گگن گیر پہنچے اور بعد میں پولیس، بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں نے ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی۔
پیر کو فوجی ہیلی کاپٹروں کو بھی آپریشن میں شامل کیا گیا۔
جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے سرینگر میں پولیس کی یادگاری تقریب سے خطاب میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ پڑوسی ملک سے ظاہر ہونے والے دہشت گردی کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
ان کے بقول ان عناصر سے چوکنا رہنا ہوگا جو جموں و کشمیر میں پر امن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے قبل ہفتے کی شام کو وادیٴ کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان میں مسلح افراد نے بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو مزدور کو قتل کیا تھا۔
یہ واقعات نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ کے وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے صرف چار دن بعد پیش آئے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کو جموں کشمیر اسمبلی کے لیے 10 برس کے طویل عرصے کے بعد حال ہی میں کرائے گیے انتخابات میں بھاری کامیابی ملی ہے۔
نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی جموں و کشمیر پر چھ برس پہلے نافذ کیے گیے نئی دہلی کے براہِ راست راج کا خاتمہ ہوا ہے اور حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کر دی تھی اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنادیا تھا۔ یہ علاقے یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری تشدد نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجوں میں سے ایک چیلنج ہوگا۔ اگرچہ جموں و کشمیر اب بھی وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ ہے اور لا اینڈ آرڈر وفاقی وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے، اتوار کو پیش آنے والے واقعے کی طرح کے واقعات عمر عبد اللہ کی حکومت پر عوامی دباؤ میں اضافہ کریں گے۔
عمر عبداللہ نے اپنے ابتدائی ردِ عمل میں کہا کہ "یہ لوگ ایک اہم تعمیراتی منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ میں نہتے لوگوں پر کیے گیئے حملے کی مذمت کرتا ہوں۔"
عمر عبداللہ کے والد اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے ٹنل کنسٹرکشن سائٹ پر ہوئی ہلاکتوں کے لیے پاکستان کو براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا ہے کہ گگن گیر جیسے واقعات کشمیر کو پاکستان کے ساتھ نہیں ملاسکتے ہیں۔ اگر پاکستان واقعی بھارت کے ساتھ دوستی چاہتا ہے تو اسے معصوموں کی ہلاکتوں کو روکنا ہوگا۔ کشمیر کبھی بھی پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا۔
گگن گیر میں پیش آئے واقعے کی جموں و کشمیر اور اس کے باہر بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔
کشمیر کے سرکردہ سیاسی اور مذہبی رہنما اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے سوشل پر ایک بیان میں کہا کہ "تمام مذاہب ہی کی طرح اسلام اس طرح کے غیر انسانی رویے کی مذمت کرتا ہے۔ ہر جان قیمتی ہے۔"