پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ان دنوں سرکاری دورے پر امریکہ میں ہیں جہاں ان کی کئی اعلیٰ شخصیات سے اہم ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کی نمائندہ ارم عباسی کی رپورٹ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے علاوہ امریکی نیشنل انٹلیجنس ڈائریکٹر ایورل ڈ ی ہینس (Avril D. Haines ) اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز کے ساتھ بھی ملاقات کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع نے بتایا ہے کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، کل چار اکتوبر کو دوپہر ڈھائی بجے ، پینٹاگون میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا استقبال کرتے ہوئے ایک آنر کورڈن اور ملاقات کی میزبانی کر رہے ہیں۔
جنرل باجوہ چھ روزہ دورے پر 30 ستمبر کو پہلے امریکی ریاست نیویارک پہنچے تھے۔ جس کے بعد پیر کو واشنگٹن میں وہ اعلی امریکی اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بدھ پانچ اکتوبر کو واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر مسعود خان کی رہائش گاہ پر پاکستانی فوج کے سربراہ امریکی تھنک ٹینکس سے وابستہ ماہرین سے ملاقات کر رہے ہیں۔ جس کے بعد اسی روز اعل سطحی پاکستانی وفد امریکہ سے واپس روانہ ہو جائے گا۔
اسلام آباد سے محمد جلیل اختر کی رپورٹ کے مطابق فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا ہے کہ جنرل باجوہ نے پہلے مرحلے میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ملٹری ایڈوائزر بیرامے ڈیوپ سے ملاقات کی ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کے امریکہ کے دورے کی منصوبہ بندی پہلے اس برس اپریل اور پھر اگست میں کی گئی تھی۔
پاکستان اور واشنگٹن میں موجود تجزیہ کار اس دورے اور اس کے نظام الاوقات کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں، اس بارے میں وائس آف امریکہ کے نمائندوں نے پاکستان اور امریکہ کے ماہرین سے بات کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر میں جنوبی ایشائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے کہا:
’’پاکستانی جنرل باجوہ کا امریکہ کا دورہ اہمیت کا حامل ہے -محض دو طرفہ فوجی تعلقات کی وجہ سے نہیں، جن کا مستقبل غیر یقینی ہے، بلکہ خود جنرل باجوہ کی وجہ سے زیادہ اہم ہے۔ وہ پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیت ہیں، اس کے باوجود کہ وہ حالیہ مہینوں میں اپنے سیاسی کردار کی وجہ سے ملک میں زیادہ متنازعہ ہی کیوں نہ بن گئے ہوں۔”
ان کا مزید کہنا تھا “ یقینی طور پر، جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ ان سرکاری امریکی حلقوں کے لیے سب سے اہم ہوگی جو پاکستان کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ آرمی چیف پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر اتنا مستحکم اثر ڈالتے ہیں، اس لیے فطری طور پر واشنگٹن کو یہ جاننے میں بہت دلچسپی ہوگی کہ اگلا آرمی چیف کون ہو گا یا پھر اگر جنرل باجوہ ہی عہدے پر رہتے ہیں۔ “
مائیکل کوگلمین نے کہا:
’’ چاہے جنرل باجوہ اگلے ماہ ریٹائرہو رہے ہوں لیکن وہ ابھی تک آرمی چیف ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ اہم معاملات پر بات چیت کے لیے، خاص طور پر افغانستان میں امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے خدشات اور سیلاب میں پاکستانی فوج کے کردار کی وجہ سے وہ بہت اہم ہیں۔‘‘
پاکستان کے آرمی چیف ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب آئندہ ماہ ان کی مدّتِ ملازمت ختم ہو رہی ہے اور گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ حالیہ مہینوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں کا تسلسل ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر نواز جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل باجوہ کا یہ دورہ اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
ان کے بقول یہ دورہ اس پالیسی کا تسلسل ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سیاسی اور سفارتی سطح کے ساتھ دفاعی تعاون بھی برقرار رکھا جائے۔
گزشتہ سال امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال اور وہاں بعض شدّت پسند تنظیموں کے دوبارہ فعال ہونے پر امریکہ سمیت کئی ممالک کو تشویش ہے۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اس پسِ منظر میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے نہ صرف پاکستان اور امریکہ کا ہم آہنگ ہونا اہم ہے بلکہ امریکہ کو خطے میں داعش خراسان اور القاعدہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا تعاون بھی درکار ہے۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کو بھی یہ احساس ہو رہا ہے کہ افغانستان کو مکمل طور پر تنہا چھوڑ دینا نقصان دہ ہوگا۔ اس لیے پاکستان کے ساتھ روابط رکھنا افغانستان اور خطے کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے کافی قریب اور اسٹرٹیجک اتحادی تھے لیکن افغانستان کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری بھی نظر آئی۔
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری کے مطابق حال ہی میں اعلیٰ سطح کے سیاسی اور سفارتی رابطوں کے بعد پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں کچھ برف پگھلی ہے اور اب ملٹری قیادت کے رابطے بھی اسی تسلسل کا حصہ ہیں۔
امریکہ اور چین سے تعلقات میں توازن پاکستان کے لیے کتنا مشکل؟
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اس وقت پیش رفت ہو رہی ہے جب خطے میں چین اور امریکہ کی مخاصمت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن سے تعلقات میں توازن رکھنا پاکستان کے لیے ایک مشکل عمل ہوگا۔
یاد رہے کہ جنرل باجوہ نے امریکہ کے دورے سے قبل چین کا بھی دورہ کیا ہے اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ دورے پاکستان کی ان کوششوں کا حصہ ہیں کہ امریکہ اور چین دونوں ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات رکھے جائیں جو پاکستان کی طے شدہ خارجہ پالیسی کا محور ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو سے ملاقات کے دوران چین کے بارے میں دیے گئے امریکی وزیرِ خارجہ کے بیان پر بیجنگ نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ پاکستان کو ملک میں آنے والے شدید سیلاب کی وجہ سے اپنے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کے لیے چین سے بات کرنی چاہیے۔
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین کی مخاصمت کے باوجود بیجنگ کو اسلام آباد اور واشنگٹن کے قریبی روابط پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اعزاز چوھری کے بقول چینی حکام تو پاکستان سے کہتے رہے ہیں کہ اس کے امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے پاس امریکہ اور چین کے درمیان توازن رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کیوں کہ دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو مثبت رکھنا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔
دوسری جانب ظفر نواز جسپال کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان کا چین اور امریکہ دونوں ممالک پر اقتصادی اور دفاعی انحصار ہے۔ ایک طرف پاکستان چین کے تعاون سے اسلحہ اور جنگی جہاز بنا رہا ہے تو دوسری جانب اسے ایف 16 جہازوں کی مرمت اور ان کی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔