امریکہ کی سینیٹ کے دو بااثر ارکان نے کہا ہے کہ اس بات کے قوی شواہد ہیں کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ہاتھ تھا۔
امریکی سینیٹرز باب کورکر اور لنڈسے گراہم نے یہ بات منگل کو سی آئی اے کی سربراہ جینا ہیسپل کی جانب سے منتخب امریکی سینیٹرز کو دی جانے والی بریفنگ کے بعد کہی۔
بریفنگ کے دوران سی آئی اے کی سربراہ نے امریکی سینیٹرز کو ان شواہد سے آگاہ کیا جو دو اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں جمال خشوگی کے قتل سے متعلق امریکی انٹیلی جنس اداروں نے مرتب کیے ہیں۔
بریفنگ کے بعد کیپٹل ہِل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر کورکر کا کہنا تھا کہ اگر سعودی شہزادے پر مقدمہ چلایا جائے تو ان پر 30 منٹ میں قتل کا جرم ثابت ہوجائے گا۔
ری پبلکن سینیٹر باب کورکر کا، جو سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، کہنا تھا کہ دستیاب شواہد کی روشنی میں صدر ٹرمپ کے لیے یہ کہنا بہت آسان تھا کہ صحافی کو قتل سعودی ولی عہد نے ہی کیا ہے۔ لیکن ان کے بقول صدر ٹرمپ نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر قتل کیا ہے تو کوئی بات نہیں۔
گزشتہ ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس بارے میں کوئی شواہد دستیاب نہیں کہ خشوگی کےقتل میں سعودی ولی عہد براہِ راست ملوث تھے۔
بریفنگ میں شریک ایک اور اہم سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ اس بات کے صفر فی صد امکان ہے کہ خشوگی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث نہیں تھے۔
بریفنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر گراہم کا کہنا تھا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ صحافی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پرنہیں کیا گیا تو وہ جان بوجھ کر نابینا بنا ہوا ہے۔
سی آئی اے کی سربراہ سے قانون سازوں کو خشوگی کے قتل پر بریفنگ دینے کا مطالبہ سینیٹر گراہم نے ہی کیا تھا جو ان ری پبلکن سینیٹرز میں شامل ہیں اس قتل پر امریکی ردِ عمل سے مطمئن نہیں۔
امریکی سینیٹ نے گزشتہ ہفتے کثرتِ رائے سے ایوان میں اس مجوزہ قرارداد پر بحث کرانے کی منظوری دی تھی جس میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خشوگی کے قتل کے ردِ عمل میں یمن جنگ کے معاملے پر سعودی عرب سے تعاون پر نظرِ ثانی کرے۔
سعودی عرب کے خلاف قرارداد کی منظوری روکنے کے لیے گزشتہ ہفتے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور وزیرِ دفاع جِم میٹس نے بھی سینیٹ کو بریفنگ دی تھی جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ کے اس موقف کی تائید کی تھی کہ خشوگی کے قتل پر سعودی ولی عہد کو موردِ الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا۔
لیکن سینیٹ کے ارکان نے بریفنگ میں سی آئی اے کی سربراہ کی عدم موجودگی پر برہمی ظاہر کی تھی اور ان سے سینیٹرز کو علیحدگی میں بریفنگ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
سینیٹ ارکان کا کہنا ہے کہ منگل کو ہونے والی بریفنگ معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر محدود رکھی گئی تھی جس میں سینیٹ کی قومی سلامتی سے متعلق کمیٹیوں کے ری پبلکن سربراہان اور اعلیٰ ڈیموکریٹ ارکان ہی شریک ہوئے۔
منگل کو بریفنگ کے بعد سینیٹر گراہم نے سعودی ولی عہد کو "دیوانہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے معمول کے تعلقات اب ختم ہوگئے ہیں۔
بریفنگ میں شریک ایک اور سینیٹر رچرڈ ڈربن کا کہنا تھا کہ جینا ہیسپل کی بریفنگ مائیک پومپیو اور جِم میٹس کی بریفنگ سے کہیں زیادہ معلوماتی تھی۔
سینیٹر ڈربن کا کہنا تھا کہ بریفنگ سے قبل ان کی رائے تھی کہ قتل میں سعودی ولی عہد کسی نہ کسی طرح ملوث ضرور تھے اور بریفنگ کے بعد یہ رائے مزید پختہ ہوگئی ہے۔
انہوں نے سینیٹ میں ڈیموکریٹ سربراہ چک شمر کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جینا ہیسپل کو یہ بریفنگ سینیٹ کے پورے ایوان کو دینی چاہیے۔
گو کہ امریکی حکومت ان 17 سعودی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرچکی ہے جو خشوگی کے قتل میں مبینہ طور پر براہِ راست ملوث تھے، لیکن کئی امریکی قانون سازوں کا مطالبہ ہے کہ ٹرمپ حکومت اس بارے میں مزید سخت موقف اپنائے اور سعودی عرب اور ولی عہد شہزادہ بن سلمان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی کرے۔