پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں سڑک کنارے نصب دیسی ساختہ بم دھماکے میں کم از کم 14 افراد ہلاک اور 13 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
مقامی قبائلی انتظامیہ کے مطابق یہ دھماکا منگل کی صبح وسطی کرم میں گودر کے علاقے میں ایک مسافر گاڑی کے قریب ہوا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکا گاڑی کے بارودی سرنگ سے ٹکرانے سے ہوا، لیکن بعد ازاں یہ بتایا گیا کہ سڑک کنارے نصب بارودی مواد میں ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا۔
دھماکا اس قدر شدید تھا کہ دس افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جب کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس واقعے کی ذمہ داری بھی کالعدم شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس نے گزشتہ ماہ کرم ایجنسی کے مرکزی شہر پاڑا چنا میں ایک امام بارگاہ کے قریب ہونے والے بم دھماکے کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی۔
کرم ایجنسی میں ایک عرصے تک شیعہ اور سنی برادری کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی بھی رہی اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر مہلک حملے بھی ہوتے رہے۔
تاہم مقامی قبائلی عمائدین کی طرف سے دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہونے کے بعد فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہونا بند ہو گئے۔
ملک عطااللہ کا تعلق کرم ایجنسی کی سنی برادری سے ہے اور وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے منگل کو پیش آنے والے واقعے کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا۔
"یہاں دونوں فریق رہتے ہیں اور ان میں کافی عرصے سے بھائی چارہ ہے اور ان کے تعلقات آپس میں کافی اچھے ہیں۔۔۔ممکن ہے جس طرح پاکستان کے دوسرے علاقوں میں دھماکے ہوتے ہیں یہ اسی کا تسلسل ہے۔"
شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مقامی قبائلی راہنما سید محمد کونین کا بھی کہنا تھا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہو سکتا ہے۔
"آج سے مردم شماری بھی شروع ہے جتنی ٹرانسپورٹ ہے وہ سب اس میں مصروف ہیں بس یہ ایک ہی گاڑی تھی اس پر 28 لوگ سوار تھے راستے میں ریموٹ کنٹرول یا باروی سرنگ کا دھماکا ہوا۔"
افغان سرحد کے قریب واقع قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے مرکزی شہر پاڑا چنار میں مارچ کے اواخر میں ایک امام بارگاہ کے قریب بم دھماکے میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
رواں سال کے اوائل میں بھی پاڑا چنار میں ہی میں ہونے والے ایک دھماکے میں 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعات شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں کا ردعمل ہیں۔