ہائی کورٹ نے شہر میں اسموگ کے تدارک کے لیے تمام مارکیٹیں رات 10 بجے بند کرنے اور اتوار کو کاروبار بند رکھنے پر غور کے لیے مقامی انتظامیہ کو تاجروں کو اعتماد میں لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ دوسری جانب تعلیمی ادارے ہفتے میں تین روز بند کرنے کا نوٹی فکیشن بھی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
دنیا کے آلودہ شہروں میں شمار ہونے والے لاہور میں گزشتہ کچھ دنوں سے فضائی آلودگی میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا جس پر لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو فوری اقدامات کی ہدایت کی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں غیر سرکاری دفاتر کے ملازمین کو ہفتے میں دو روز ورک فرام ہوم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے تدارک سمیت دیگر متفرق درخواستوں پر بدھ کو سماعت کی جس میں عدالت نے ڈپٹی کمشنر کو تاجر تنظیموں سے ملاقات کر کے لائحہ عمل بنانے کا حکم دیا۔
دورانِ سماعت سرکاری وکیل کی جانب سے تمام غیر سرکاری اداروں میں دو روز گھروں سے کام کرنے اور تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں ہفتے میں تین دن چھٹیوں کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کیا گیا۔
کیا ان اقدامات سے اسموگ ختم ہو سکے گی؟
ماہرین کے مطابق اسموگ کے خاتمے کے لیے حکومتی اداروں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے اس سلسلے میں طے کردہ قوانین پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمینٹل سائنسز کے پرنسپل ڈاکٹر ساجد راشد سمجھتے ہیں کہ اسموگ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ فیکٹریوں، گاڑیوں، کارخانوں اور کوڑا کرکٹ کو آگ لگانے سے پیدا ہونے والا دھواں کنٹرول کیا جائے اور اس حوالے سے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایندھن جلانے سے پیدا ہونے والی زہریلی گیسیں ہوا میں داخل ہوتی ہیں جس سے اکتوبر کے اختتام سے جنوری کے اوائل تک ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اور زہریلے مادے فضا میں معلق رہتے ہیں۔
محکمہ برائے تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹر نسیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ اسموگ کا دورانیہ ختم ہو چکا ہے اور اَب دھند شروع ہو گئی ہے۔ اسموگ اکتوبر کے آخری دس دِنوں سے لے کر نومبر کے شروع کے دس دِنوں پر اپنی آخری حد پر ہوتی ہے۔ 20 نومبر کے بعد موسم میں تبدیلی کے سبب درجہ حرارت نیچے گرتا ہے اور دھند شروع ہو جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ سال کا موازنہ گزشتہ برس سے کیا جائے تو 15 نومبر 2021 سے اسموگ شروع ہو گئی تھی جس میں شہریوں کی آنکھوں میں پانی اور گلے میں خراش کی شکایات عام ہو رہی تھیں، لیکن اس بار اس میں کمی آئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ محکمے نے رواں برس مئی سے اسموگ پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لاہور شہر میں اس حوالے سے نو مختلف زونز بنائے گئے اور اسموگ اسکواڈز بنا کر کارروائیاں کی گئیں۔
اُن کے بقول ایسی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی گئی جہاں دھواں کنٹرول کرنے والے آلات نصب نہیں تھے۔
اسموگ ختم کیسے کی جا سکتی ہے؟
نسیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ ایئر کوالٹی انڈیکس دیکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ جس میں 24 گھنٹوں کی اوسط نکالی جاتی ہے۔ لیکن عام طور پر نجی ادارے یا سرکاری ادارہ صرف اُس ریڈنگ کو لیتےہیں جو آخری حد کو چھو رہی ہوتی ہے جو کہ ایک غلط طریقہ کار ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹوں میں سے کم از کم آٹھ گھنٹوں کی اوسط نکالی جاتی ہے۔
اُن کہنا تھا کہ عام طور پر صبح کے اوقات میں اے کیو آئی 172 یا 170 ہوتا ہےجب کہ شام کے اوقات میں 400 کی حد کو چھو رہا ہوتا ہے۔ نسیم الرحمٰن کے مطابق پاکستان میں 200 اے کیو آئی کو تسلی بخش سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ساجد راشد کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا عارضی حل تو یہ ہے کہ کوڑا کرکٹ اور فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد کی جائے۔ کالا دھواں خارج کرنے والی فیکٹریوں، بھٹوں اور گاڑیوں کو روکا جائے۔
اُن کے بقول اس مسئلے کا طویل مدتی حل یہ ہے کہ ٹریفک کو کنٹرول کیا جائے۔ ماحول دوست اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ چلائی جائے تاکہ لوگ اپنی گاڑیوں کے بجائے ان پر سفر کریں۔ فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا جائے اور ان میں دھواں کنٹرول کرنے والے آلات نصب کیے جائیں۔
ڈاکٹر ساجد راشد کا کہنا تھا کہ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں 40 فی صد فضائی آلودگی گاڑیوں کے دھوئیں، 20 فی صد فصلوں کی باقیات جلانے جب کہ 40 فی صد فضائی آلودگی صنعتوں، بھٹوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہیں۔
ڈاکٹر ساجد راشد کہتے ہیں کہ حکومت نے شہر میں اسموگ کے حوالے سے دفعہ 144 تو لگا رکھی ہے لیکن قوانین پر عمل درآمد ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ دھواں دینے والی گاڑیوں کے چالان تو پانچ سو روپے یا ہزار روپے کے ہو رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ شخص چالان کے بعد اپنی گاڑی کو ٹھیک کرا رہا ہے یا نہیں۔ یہی حال کارخانوں کا ہے۔
دوسری جانب پنجاب حکومت نے لاہور سمیت دیگر شہروں میں اسموگ میں کمی کے لیے ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ان علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔