کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں ووٹنگ 5دسمبر کو ہوگی۔ لیکن، پوسٹر کی حد تک ابھی سے ’جمہوریت‘ نظر آنے لگی ہے۔ دیرینہ شہریوں کو بھی یہ منظر سالوں بعد دیکھنے کو ملا ہے۔
جہاں مخالف سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں میں پرچم لگانے اور پوسٹر چسپاں کرنے پر ’بلوے‘ ہو جایا کرتے تھے اور بعض اوقات جانی نقصان کی بھی خبریں ملتی تھیں اسی شہر میں اب جگہ جگہ تمام سیاسی جماعتوں کے جھنڈے، پوسٹر اور بینر ساتھ ساتھ لہراتے نظر آرہے ہیں۔
شہر کا کوئی اوورہیڈ یا پیڈیسٹرین برج ایسا نہیں جہاں متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے تشہیری پوسٹر، پینا فلیکس، بینر اور جھنڈے نہ لگے ہوں۔ ایک عام مشاہدے کے مطابق، عددی اعتبار سے، پہلا نمبر ایم کیو ایم، دوسرا پی ٹی آئی اور تیسرا جے آئی کا ہے۔
تین ہٹی کے ایک رہائشی نے وی او اے کو بتایا کہ ’اس بار تو ان جماعتوں کے بھی پوسٹر نظر آ رہے ہیں جو پچھلے کئی انتخابات میں سرے سے غائب تھیں، مثلاً مہاجر قومی موومنٹ، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ نون ۔۔۔اور سب سے بڑھ کر آزاد امیدوار۔ میرے نزدیک اس کا سہرا بھی رینجرز کے سر بندھنا چاہئے۔‘
متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ یعنی حقیقی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی سخت مخالف ہیں لیکن لائنز ایریا اور لانڈھی جیسے علاقوں میں ان دونوں جماعتوں کا تشہیری مواد آپ کو ساتھ ساتھ نظر آئے گا۔ کئی مقامات پر تو دونوں کے دفاتر تک قریب قریب واقع ہیں۔ لیکن اس بار کسی قسم کے’ تصادم‘،’ ٹکراوٴ ‘ یا ضد بحث کا امکان نظر نہیں آ رہا۔‘
ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ کچھ امیدوار ویسے تو آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں، لیکن ان کے پوسٹروں کو دیکھ کرگماں ہوتا ہے کہ انہیں کسی نہ کسی کی حمایت ضرور حاصل ہے۔ ناظم آباد کے حلقوں سے الیکشن لڑنے والے دو امیدوار ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے پوسٹر پر سابق عسکری صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی تصویر لگائی ہوئی ہے، حالانکہ ان کی مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کو بلدیاتی انتخابات سے کوئی دلچسپی معلوم نہیں ہوتی۔
لیاقت آباد شہر کا ایسا علاقہ ہے جو سالوں سے ایک سیاسی پارٹی کا گڑھ تصور ہوتا ہے لیکن جمعیت علمائے اسلام پاکستان یہاں سے میدان میں اتری ہے۔ انہوں نے اپنے پوسٹروں پر ماضی کے شہرت یافتہ مذہبی رہنما مولانا نورانی کی تصویر لگا رکھی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ جمعیت علمائے پاکستان نے اپنے تشہیری پوسٹر میں ممتاز قادری کی بھی تصویر چسپاں کی ہوئی ہے، حالانکہ ممتاز قادری مبینہ طور پر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے الزام میں قید ہیں۔
یرنظر رپورٹ کی تیاری کے دوران وائس آف امریکہ کے نمائندے نے شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تو مشاہدے میں آیا کہ تمام شہر میں چلنے والی تشہیری مہم بھی زبان اور صوبے کی سطح پر بٹی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں پنجابی بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے وہاں مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم مسلم لیگ ن کے نام پر جاری و ساری رکھی ہوئی ہے۔
اسی طرح جن علاقوں میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں وہاں پاکستان پیپلز پارٹی، بے نظیر، بلاول اور انتخابی نشان ’تیر‘ کے ساتھ اپنی الیکشن مہم چلائے ہوئے ہے۔ یہی حال پشتو بولنے والے اور پختونوں کی آبادیوں کا حال ہے، وہاں اے این پی کے نغمے گائے اور بجائے جا رہے ہیں۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات تک ’اسٹیک ہولڈر‘ کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد تین، چار سے زیادہ نہیں تھی۔۔ مگر اس بار ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، اے این پی، پاکستان مسلم لیگ ن اور آزاد امیدواروں سمیت ان کی ایک طویل فہرست ہے۔