رسائی کے لنکس

اوبر پر کاروبار میں اضافے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام


’’ڈرائیورز کو جب بھی کسی واقعے کا سامنا کرنا پڑا تو اوبر کے ایگزیکٹو حکام نے اس واقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی اور انتظامی حکام کی حمایت حاصل کی۔‘‘
’’ڈرائیورز کو جب بھی کسی واقعے کا سامنا کرنا پڑا تو اوبر کے ایگزیکٹو حکام نے اس واقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی اور انتظامی حکام کی حمایت حاصل کی۔‘‘

عالمی میڈیا اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ رائیڈ شیئرنگ کمپنی 'اوبر' نے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 'اوبر فائلز' کے نام سے سامنے آنےو الی تحقیقات میں کمپنی کی ایک لاکھ 24 ہزار دستاویزات کا جائزہ لیا گیا جن پر کئی میڈیا اداروں نے عرق ریزی کی۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ایک دہائی قبل امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو سے شروع ہونے والے اس اسٹارٹ اپ نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے ٹیکسی ڈرائیورز کے پرتشدد احتجاج کو بنیاد بنا کر کئی ملکوں میں ریگولیٹری اتھارٹیز سے ریلیف حاصل کیا۔

اوبر نے اتوار کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کمپنی کی جانب سے ایسے اقدامات کو تسلیم کیا ہے لیکن اوبر کے مطابق یہ طریقہ کار اس وقت اپنایا گیا جب ٹریوس کالانک کمپنی کے چیف ایگزیکٹو تھے۔

سن 2017 میں ٹریوس کو سخت انتظامی طریقہ کار اور جنسی اور ذہنی ہراسانی کے کئی واقعات کے افشا ہونے کے بعد استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

کمپنی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ مسابقت کے بجائے تعاون کے زمانے میں داخل ہو چکی ہے اور اپنے سابقہ حریفوں، جن میں لیبر یونین اور ٹیکسی ڈرائیور شامل ہیں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہے۔

ان تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جیسے جیسے اوبر نے اپنے کرایوں میں کمی کی جس سے ٹیکسی انڈسٹری کو خطرات لاحق ہوئے، کمپنی کے ڈرائیوروں کو پرتشدد ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جن میں 2016 میں پیرس میں ہونے والے مظاہرے بھی شامل ہیں۔

اس تحقیقات میں شامل ایک میڈیا ادارے اور اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے رپورٹ کیا کہ ڈرائیورز کو جب بھی کسی واقعے کا سامنا کرنا پڑا تو اوبر کے ایگزیکٹو حکام نے اس واقعے سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ متعلقہ حکام کی حمایت حاصل کی تاکہ اسے نئی مارکیٹوں میں داخلے میں آسانی ہو۔ اخبار کے مطابق کئی مرتبہ ٹیکسی اور دوسرے لائسنسوں کے بغیر بھی کام شروع کیا گیا۔

'اوبر فائلز' کے مطابق کمپنی کے سابق سی ای او ٹریوس کالانک پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے پیرس میں 'اوبر' ڈرائیورز کے احتجاج کا منصوبہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ 'تشدد' کامیابی کی ضمانت ہے۔

ٹریوس کالانک کے ایک ترجمان نے اس تحقیقات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کالانک نے کبھی بھی یہ خیال پیش نہیں کیا کہ اوبر ڈرائیوروں کی سلامتی کے عوض پرتشدد واقعات سے فائدہ اٹھائے۔

اس تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کمپنی نے انتظامی تحقیقات سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک واقعے کا ذکر کیا جس میں ایمسٹرڈیم میں منتظمین کی جانب سے ایک ریڈ سے پہلے اوبر کے آفس میں رکھی تمام ڈیوائسز تک رسائی کو بند کر دیا گیا۔

پوسٹ کے مطابق کمپنی کو 2014 سے 2016 کے دوران فرانس میں اس وقت کے معاشی امور کے وزیر، ایمانوئل میخواں کی صورت میں حلیف مل گیا تھا۔ کمپنی کا خیال تھا کہ میخواں کی وجہ سے ملک کے انتظامی امور کے حکام قوانین کو نسبتاً کم سختی سے تشریح کریں گے تاکہ کمپنی کے آپریشن میں تعطل پیدا نہ ہو۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں نے ناقدین کی جانب سے ان کے وزارت کے دور میں اوبر کے ایگزیکٹو حکام اور کاروباری لابسٹس سے قریبی تعلقات پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے معاشی امور کی وزارت کے دور میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں۔

اس خبر کے لیے مواد اے ایف پی اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG