عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر 14 دن کے اندرقومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے یا اس سے متعلق قوائد و ضوابط میں کسی گنجائش کی موجودگی کی باریک قانونی وضاحت پر ابھی تک حکومت اور حزب اختلاف کی آرا، یکسر مختلف ہیں۔
پارلیمانی امور کے وفاقی مشیر بابر اعوان نے کہا ہےکہ حزب اختلاف کا اس بات پر اعتراض اٹھانا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 21 مارچ کے بجائے 25 مارچ کو کیوں بلایا جا رہا ہے، ''بلا جواز'' ہے، کیونکہ بقول ان کے، قومی اسمبلی کا ہال ''متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد کے تحت او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے لیےمختص کیا گیا ہے''۔
پیر کو سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ''منحرف اراکین اسمبلی کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ واپس آجائیں، بصورت دیگر، انہیں تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا ہوگا''۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اگر قومی اسمبلی کا اجلاس 21مارچ کے بجائے تین روز بعد ہوتا ہےتو کون سی قیامت آجائے گی''۔
دوسری جانب، غیر سرکاری ادارے، 'پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈولپمنٹ اینڈ ٹرانس پرینسی' (پلڈاٹ ) کی جوائنٹ ڈائریکٹر آسیہ ریاض نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے ''قواعد بہت واضح ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کے پیش ہونے پر اسے فوراً اراکین کو مشتہر کرنا اور 14 دن کے اندر اجلاس بلانا طے ہے، جس کے پہلے دن ہی قرارداد عدم اعتماد پیش کی جانی ہے''۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد پر بحث ہوسکتی ہے۔ تاہم ،سات دن کے اندر ووٹنگ کروانا لازم ہے۔
بقول ان کے''یہ تو قواعد ہیں، جبکہ آئین بھی اس حوالے سے واضح ہے اور اس کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرلیا ہے''۔
آسیہ ریاض نے کہا کہ '' ظاہری طور پر یہ قواعد کی خلاف ورزی ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کو اس اقدام کے نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے''۔
اسپیکر کے اس فیصلے پر حزب اختلاف اسے آئین شکنی قرار دیتے ہوئے قانونی اقدام لینے کا اعلان کررہی ہے۔
حزب اختلاف اسپیکر کےخلاف کیا اقدام لے سکتی ہے، اس پر آسیہ ریاض نے کہا کہ آئین شکنی پر آرٹیکل چھ کا عمل کافی گمبھیر ہے جو کہ حکومت وقت ہی دائر کرسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ '' عدم اعتماد ایک جمہوری عمل کا حصہ ہے'' اور اس پر ''قواعد کے مطابق اجلاس نہ بلانے کو بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے''۔