پاکستان کے شہر لاہور کی معروف یونیورسٹی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کو ان دنوں تنقید کا سامنا ہے جس کی وجہ 'مذہبی رواداری'کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں احمدی اسکالر کو دعوت دے کر چند گھنٹے قبل ان سے معذرت کرنا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل لمز چیپٹر نے چھ دسمبر کو 'مذہبی رواداری' پر ایک مباحثے کا اہتمام کیا تھا جس میں ہندو، سکھ، عیسائی، شیعہ کمیونٹی اور احمدی کمیونٹی کے نمائندوں کو دعوت دی گئی تھی۔ احمدی کمیونٹی کی نمائندگی کے لیے ڈاکٹر مرزا سلطان احمد کو مدعو کیا گیا، لیکن تقریب سے چند گھنٹے قبل ان سے معذرت کر لی گئی۔
ڈاکٹر مرزا سلطان احمد پیشے کے اعتبار سے ماہرِ اطفال ہیں۔ تا ہم وہ تاریخ اور آئینِ پاکستان کی تشریح اور بعد میں ہونے والی ترامیم پر کتابیں لکھ چکے ہیں۔
ایمنسٹی لمز چیپٹر نے چھ دسمبر کو ایک ٹوئٹ کی جس میں بتایا گیا کہ چھ دسمبر کو ایمنسٹی لمز چیپٹر نے مذہبی رواداری سے متعلق ایک مباحثے کا اہتمام کرنا چاہا۔تاہم بدقسمتی سے ہمیں عجلت میں کہ کہا گیا کہ احمدی اسکالر کا نام خارج کر دیں جنہیں ہم نے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے بلایا تھا۔
وائس آف امریکہ نے ایمنسٹی لمز کی صدر ماہین شفیق سے متعدد بار رابطہ کر کے اس معاملے پر بات کرنا چاہی، لیکن اُنہوں نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے ردِعمل کے لیے بھیجے گئے پیغام کے جواب میں ماہین کا کہنا تھا کہ لمز کی جانب سے ایک، دو روز میں اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بیان جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے لمز کا شمار پاکستان کے صفِ اول کے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ جہاں ادب، قانون، تاریخ، سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس ایڈمنسٹریشن سمیت دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
'لگتا ہے اب لمز جیسے اداروں میں بھی ایسے موضوع پر بات نہیں ہو سکے گی'
ڈاکٹر مرزا سلطان احمد واقعہ کے فوراً بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ بذریعہ ٹیلیفون اُن سے رابطہ کرنے پر اُنہوں نے بتایا کہ رواں برس نومبر میں لمز کی جانب سے اُنہیں اِس مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جس کا موضوع “پاکستان میں برداشت” تھا۔
اُن کے بقول پہلے اس مذاکرے کی تاریخ تبدیلی کی گئی اور پھر ان کا نام مقررین کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سلطان مرزا کے مطابق جب اُنہوں نے مہمانوں کی فہرست سے اپنا نام نکلنے کی وجہ پوچھی تو لمز انتظامیہ نے اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
اُن کے بقول جامعات ایسی جگہیں ہوتی ہیں، جہاں ایسے موضوعات پر کھل کر گفتگو کی جا سکتی ہے تاکہ طلبہ کے سامنے تصویر کا ہر رُخ آ سکے۔ لیکن اب لمز جیسی یوینورسٹی میں لگتا ہے ایسے موضوعات پر بات نہیں ہو سکے گی۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تمام اقلیتوں اور خاص طور پر احمدیوں کے خلاف ملک بھر میں ایک نفرت انگیز مہم چلائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ اَب بھی جاری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے احمدیوں کے دِل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ڈاکٹر مرزا سلطان کا کہنا تھا کہ وہ ہاتھ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جو لمز جیسے اداروں کے ہاتھ باندھتے ہیں۔
'ایسے واقعات سے اچھا پیغام باہر نہیں جاتا'
مباحثے میں شامل مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے پیٹر جیکب جو سوشل جسٹس پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک خاص قسم کی فضا بنی ہوئی ہے جس سے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مباحثے کا موضوع برداشت تھا جس میں نام ور مہمان شریک ہو رہے تھے جس میں کسی قسم کی شدت پسندی کی بات نہیں ہونی تھی۔ لیکن اِس کے باوجود لمز انتظامیہ پر دباؤ آیا اور اُنہیں احمدی برادری کے مہمان کو مدعو کرنے پر معذرت کرنا پڑی۔ یہ ایک ناخوش گوار واقعہ ہے جس کا پیغام اچھا نہیں جاتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ بات لمز یا کسی دوسری یونیورسٹی کی نہیں بلکہ پاکستان کو بطور ملک اور قوم اچھی ساکھ کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی بھی درست بات کر رہا ہے۔ جس میں برابری، برداشت اور انصاف کی بات ہوتی ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مباحثے میں شریک سکھ برادری کی نمائندگی کرنے والے رکن پنجاب اسمبلی سردار رامیش سنگھ اروڑہ کہتے ہیں کہ ایک تقریب رواداری اور برداشت پر ہو رہی ہے۔ اُس میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ معاشرے میں برداشت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں سب کو شامل کرنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ لمز نے ایسا کیوں کیا۔ اس کا جواب تو وہ ہی بہتر دے سکتے ہیں۔
رامیش سنگھ اروڈہ کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹس واچ سمیت دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پاکستان میں مذہبی عدم برداشت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف قراردادیں پاس ہوتی ہیں۔ جب ایسی باتیں سامنے آتی ہیں تو پاکستان کی منفی تصویر سامنے آتی ہے۔
خیال رہے لمز میں یہ پہلا موقع نہیں۔ اِس سے قبل بھی مختلف موضوعات پر ہونے والی تقاریب منسوخ یا اُن میں مدعو کیے گئے مہماموں کو بغیر کوئی وجہ بتائے آخری وقت میں منع کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ برس مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے 50 برس مکمل ہونے پر بلائی گئی ایک کانفرنس بغیر کوئی وجہ بتائے منسوخ کر دی گئی تھی۔ اسی طرح توہینِ مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے مشال خان کی برسی پر ایک تقریب بھی منسوخ کر دی گئی تھی۔
سن 2014 میں بلوچستان کے حوالے سے ہونے والے ایک سیمینار میں تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر کو شرکت سے روک دیا گیا تھا۔
رامیش سنگھ نے کہا کہ ایک واقعہ چھ دسمبر کو پیش آیا لیکن اُس کی گونج ابھی تک مختلف محفلوں میں سنائی دے رہی ہے۔ جو کہ ایک اچھا تاثر نہیں ہے۔ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنا چاہیے۔
ڈاکٹر مرزا سلطان احمد کہتے ہیں کہ بات صرف جامعات تک محدود نہیں پاکستان کے بڑے ذرائع ابلاغ میں بھی مذہبی منافرت کی کم ہی مذمت کی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان احمدی کمیونٹی سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ آئینِ پاکستان کے تحت تمام اقلیتوں کو پاکستان میں حقوق حاصل ہیں۔