رسائی کے لنکس

’لنڈا بازار‘ غریبوں کے ہاتھ سے نکلتی’خریداروں کی جنت‘


’لنڈا بازار‘ کی اصطلاح ہوسکتا ہے آپ کو عوامی لگے۔ لیکن، یہ شہر اور اس کے رہنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں۔بلکہ، اگر یہ کہا جائے کہ لفظ ’لنڈا‘۔۔ ’بازار‘ کی پہچان سے زیادہ ’غیر ملکی اور استعمال شدہ چیز‘ کی شناخت بن گیا ہے، تو غلط نہ ہوگا

سردی کی برفیلی ہوا کے جھونکے ابھی کراچی تک نہیں پہنچے۔ لیکن، فکرمند لوگوں نے گرم کپڑوں کی تلاش شروع کردی ہے۔ خاص کر وہ لوگ جو ’عام آدمی‘ کے زمرے میں آتے ہیں، اُن کا رخ کراچی کے’لنڈا بازار‘ کی طرف ہوگیا ہے۔۔ وہی لنڈا بازار جو عام ’خریداروں کی جنت ‘ ہے۔۔۔مگر اب شاید غریبوں کے ہاتھ سے یہ جنت نکلتی جا رہی ہے۔

’لنڈا بازار‘ کی اصطلاح ہوسکتا ہے آپ کو عوامی لگے۔ لیکن، یہ شہر اور اس کے رہنے والے اس سے بخوبی واقف ہیں۔بلکہ، اگر یہ کہا جائے کہ لفظ ’لنڈا‘۔۔’بازار‘ کی پہچان سے زیادہ ’غیرملکی اور استعمال شدہ چیز‘ کی شناخت بن گیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔

یہ مزار قائد سے ٹاور جانے والے ایم اے جناح روڈ پر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی عمارت کے دائیں جانب والی شاہراہ پر واقع ہے۔ شہر کو اپنی آنکھوں سے بنتے اور ترقی کرتے دیکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ بہت قدیم مارکیٹ ہے۔

شرف آباد کراچی کے ایک شہری زیرک اپنے لڑکپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’وہ اسکول کے دنوں سے یہاں آنا جانا رکھے ہوئے ہیں۔ اس دور میں یہاں لائٹ ہاوٴس کے نام سے ایک سنیما ہال بھی ہوا کرتا تھا اور اسی کے عقب میں یہ بازار آتا تھا۔ چھٹی کے دن ان کا پسندیدہ مشغلہ ہی منہ اندھیرے یہاں آکر ’برانڈڈ‘ غیرملکی جوگرز اور کپڑے چھاٹنا ہوا کرتا تھا۔ یہاں آنے کی بہت جلدی ہوا کرتی تھی کہ کہیں اچھی اور برانڈڈ چیزیں کوئی اور نہ چھانٹ کر لے جائے۔‘

زیرک مزید بتاتے ہیں۔۔’اب وہ زمانے لد گئے۔ اب بازار کے طور طریقے اور اسٹائلز ہی بدل گئے ہیں۔ اب مہنگائی کا ’رونا‘ یہاں بھی ہونے لگا ہے۔ پہلے’پیسوں‘ میں جو چیز آجاتی تھی وہ اب ’روپے‘میں ہی نہیں’ڈھیروں روپوں‘ میں آتی ہے۔پہلے، پہل ٹھیلوں یا ٹین کی کچی پکی چادروں والی دکانیں ہوا کرتی تھیں اب وہ دکانیں ’لش پش‘ ہوگئی ہیں۔۔شیشے کے فرنچ دوڑ لگ گئے، دکانداروں نے ائیرکنڈیشنز لگا لئے۔۔کپڑے ڈھیری کی شکل کے بجائے باقاعدہ استری کئے ہوئے اور غیر ملکی اسٹائل کے ہینگرز میں لٹکے ہوئے ملنے لگے ہیں۔۔‘

زیرک اپنے موجودہ تجربے سے مزید آگاہی کے لئے کہتے ہیں ’ایک دکان کا تو یہ حال ہے کہ وہاں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے 100سے زائد مشہور ترین برانڈز کے نام اور دیگر تفصیلات لکھی ہیں، تاکہ آپ کو برانڈ سلیکٹ کرنے میں پریشانی نہ ہو یا دکاندار سے یہ نہ پوچھنا پڑے کہ فلاں برانڈ کس ملک ہے اور فلاں کس ملک کا۔ اب قیمتیں سن کر ہی ہوش اڑجاتے ہیں۔مجھے تو لگتا ہے، اب لنڈا بازار بھی غریب آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوجائے گا۔۔‘

ایک اور شہری، معین الدین بھی اس بازار کے چپے چپے سے واقف ہیں اور کم عمری سے یہاں آتے رہے ہیں وہ کہتے ہیں۔ بقول اُن کے، ’یہاں کے دکانداروں کو قیمتوں کا احساس دلانے والے یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے اور پوش ایریاز سے یہاں آنے والے لوگ ہیں۔ وہ گاڑی سے نہیں اترتے، بارگینگ نہیں کرتے۔۔ جو قیمت بتائی اس پر سودہ کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مہنگے علاقوں سے وہ آتے ہیں وہاں انہی چیزوں کو بہت زیادہ قیمتوں پر فروخت کیا جاتا ہے لیکن یہ چیز انہیں یہاں آکر نصف قیمت میں ملتی ہے تو وہ اسے بھی ’سستا سودہ‘ خیال کرتے ہیں۔‘

معین مزید کہتے ہیں، ’امیرزادوں کی اس عادت نے دکاندار کو برانڈیڈ چیزوں کے نام تو یاد کراہی دیئے ہیں، ساتھ ساتھ وہ ’صاحب حیثیت‘ خریداروں کے بھی منتظر رہنے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی آدمی غلطی سے ان دکانوں میں آبھی جائے تو واپسی میں دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے باہر نکلتا ہے۔‘

تاہم، اسی بازار میں واقع ایک جدید طرز کے اسٹور ’اسد اینڈ احمد‘ کے مالک ظاہر شاہ نے وی او اے کو بتایا: ’قیمتیں بڑھانے کے ہم ذمے دار نہیں ہیں۔۔پہلے مال براہ راست پاکستان آتا تھا، ڈالر کے ریٹ بھی کم تھے اس لئے سستا تھا اب سارا مال دبئی کے رستے آتا ہے اور ڈالر بھی سو روپے سے اوپر کا ہوگیا ہے۔۔چیزیں تو مہنگی ہوں گی ہی۔ جب ہمیں مال مہنگا ملے گا تو ہم سستا کس طرح بیچیں گے۔‘

لنڈا بازار کا ایک نام ’لائٹ ہاوٴس‘ بھی ہے جو ماضی میں یہاں واقع ایک سنیماہالز کی مناسبت سے پڑا۔ یوں تو شہر میں پرانے کپڑوں کے کئی اور بازار بھی ہیں جیسے صدر، چاوٴلہ مارکیٹ، مشرق سینٹر، اور بنارس۔ لیکن، اس کے باوجود یہی ’لائٹ ہاوٴس‘ یا ’لنڈا بازار‘ سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق یہ ’لنڈا کے مال کی ہول سیل مارکیٹ‘ ہے۔ لہذا، یہاں باقی بازاروں کے مقابلے میں دام کم اور ورائٹیز زیادہ نظر آتی ہیں۔

کیا بکتا ہے لنڈا بازار میں
پرانے کپڑے، پردے، غیر ملکی جوتے، چپل، سینڈلز، سوئٹرز، کھلونے، جیکٹ، موزے، چیسٹر، کورٹ، کمبل، مفلر، نیکر، نائٹ سوئٹس، ٹراوٴزرز، کارپٹس، چادریں، ٹریول بیگز، اسکول بیگز، تولیاں، ڈیکوریشن پیسز، کٹلری، شیشے کے برتن، چائنا مٹی کے بنے کپ، مگس۔۔۔اور’ایڈیڈاس‘، ’نائیکی‘، ’پوما‘،’ٹمبرلینڈ‘،’سینٹ مائیکل‘، ’وائی ایس ایل‘ اور ’ٹومی ہل فیگر‘ جیسے مشہور و معروف غیر برانڈز کا مختلف سامان اس بازار کی ’شوبھا‘ بڑھانے کا سبب ہے۔

یہاں سال بھر خریداروں کا رش رہتے ہیں۔ لیکن، جیسے ہی سردی آتی ہے اس رش میں دوگنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اکثر اوقات تو تل دھرنے کو بھی جگہ دکھائی نہیں دیتی۔

ایک دکاندار کا کہنا ہے-: ’ان دنوں میں ہمیں اضافی سیلز مین رکھنا پڑتے ہیں اور سامان کو آواز لگالگا کر لاٹ کی شکل میں بیچنا پڑتا ہے، سب سے زیادہ سوئٹرز، کورٹ، جیکٹس، کمبل اور رضائیاں فروخت کی جاتی ہیں۔‘

نئے دور کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے، دکانداروں نے بھی خود کو اپ ڈیٹ کیا ہے اور وہ انٹرنیشنل برانڈز کے بارے میں بھی کافی معلومات رکھتے ہیں۔ اگر کوئی گاہگ مول تول کرے اور کسی چیز کی بہت کم قیمت لگائے تو پلٹ کرجواب دیتے ہیں ’تمہیں معلوم ہے یہ فلاں کمپنی کا ہے، طارق روڈ جا کر پتہ کرو اس کی اصل قیمت کیا ہے‘۔ اس رویے پر بے چارہ خرید ار اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔

لنڈا بازار کے بیشتر دکانداروں نے رفتہ رفتہ اپنی دکان کی شکل و صورت کو بدل دینے کا رجحان اپنا لیا ہے۔

شیشے کے خوب صورت ڈسپلے میں رکھے پرانے کپڑوں اور شوز کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ساری دکان ہی برانڈڈ ہے۔

گو کہ ابھی ان ’برانڈڈ دکانوں‘ کی تعداد کم ہے۔ لیکن، غریب عوام کیلئے باعث تشویش ضرور ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر مستقبل میں لنڈا بازار کی ہر دکان نے ایسی ہی شکل و صورت اختیار کرلی، تو پرانے کپڑے بھی اس کی پہنچ سے دور ہوجائیں گے۔

XS
SM
MD
LG