کراچی کے علاقے نیا آباد، لیاری میں رہائشی عمارت منہدم ہونے سے ہلاکتوں کی تعداد 22 ہوگئی ہے جن میں دس خواتین بھی شامل ہیں۔ عمارت کے ملبے تلے دبے مزید افراد کے زندہ بچ جانے امکانات بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
اتوار کو منہدم ہونے والی عمارت کے ملبے کے نیچے پھنسے افراد کو نکالنے کے لئے فوج کی نگرانی میں بھاری مشینری کے ذریعے ریسکیو آپریشن مسلسل تیسرے روز بھی جاری رہا، جسے اب تک مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ امدادی سرگرمیوں میں گنجان آبادی اور پتلی گلیوں کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔
ادھر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ مخدوش قرار دی گئی اس پانچ منزلہ عمارت کو رواں سال 16 مارچ کو خطرناک قرار دیا گیا تھا اور مکینوں کو فوری عمارت خالی کرانے کے لئے نوٹس جاری کئے تھے، جبکہ بجلی گیس اور پانی کے متعلقہ کنکشنز بھی منقطع کرنے سے متعلق نوٹس جاری کئے جاچکے تھے۔ تاہم، اسکے باوجود کئی مکینوں نے بلڈنگ خالی نہیں کی۔
ادھر لیاری سے منتخب رکن قومی اسمبلی عبدالشکور شاد نے الزام عائد کیا ہے کہ غیرمعیاری عمارتوں کی تعمیر اور اس کے ساتھ مخدوش عمارتوں میں رہائش پذیر افراد کی ذمہ داری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ صوبائی حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والے اس ادارے کے افسران اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے حادثات معمول بنتے جارہے ہیں۔
دوسری جانب، سندھ کے وزیر بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ کی زیر صدارت شہر میں موجود مخدوش عمارتوں کو خالی کروانے اور غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام کے حوالے سے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مخدوش قرار دی جانے والی عمارتوں کے رہائشیوں کو عمارتوں کو خالی کرانے کے نوٹس جاری کرنے کے ساتھ پولیس کی مدد سے خالی کرایا جائے گا۔
وزیر بلدیات نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ غیرقانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی مکمل معاونت کی جائے اور لیڈی پولیس کی مدد سے خواتین کو ڈھال بنانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
سید ناصر شاہ کے مطابق، غیر قانونی عمارتوں اور پورشنوں کی تعمیرات کے خلاف کام جاری ہے، جبکہ غیر قانونی تعمیرات کے مرتکب اداروں اور افراد کے خلاف ٹھوس اور سخت اقدامات کے سلسلے میں ایس بی سی اے کی علیحدہ عدالت کے قیام اور جج کی تعیناتی کے لئے بھی اقدامات جاری ہیں۔
حکام کے مطابق، 422 مخدوش قرار دی گئی عمارتوں میں سے پچپن عمارتیں محکمہ تاریخی ورثہ کے زیر انتظام ہیں۔ صوبے بھر میں ہونے والی تعمیرات میں معیار برقرار رکھنے اور ان کے ڈیزائن کی منظوری دینے کی ذمہ داری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ہے۔ ادارے میں کرپشن، بلڈر کے ساتھ ملی بھگت اور معیار پر سمجھوتے کی شکایات بھی عام ہیں۔
تاہم، کراچی میں عمارت گرنے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ صرف چار ماہ کے دوران رہائشی عمارت گرنے اور اس سے ہلاکتوں کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ مارچ میں کراچی کے علاقے رضویہ سوسائٹی میں ایک رہائشی عمارت دو دیگر عمارتوں پر گرنے سے خواتین اور بچوں سمیت 27 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی طرح دسمبر میں کراچی ہی کے اولڈ سٹی ایریا میں رہائشی عمارت گر گئی تھی۔ تاہم، خوش قسمتی سے اس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔
اس سے قبل جنوری میں سکھر میں ایک رہائشی عمارت گرنے سے دس افراد ہلاک اور 18 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔