کراچی کی قدیم بستی لیاری میں جرائم پیشہ افراد کےخلاف پچھلے آٹھ دنوں سےجاری آپریشن جمعہ کی شام اچانک بند کردیا گیا۔
آپریشن بند کئے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی پولیس، سی آئی ڈی اور ایف سی کے اہلکاروں نے لیاری سے واپسی شروع کردی۔ تاہم، اسی دوران چیل چوک پر پولیس کی گاڑیوں پر دستی بموں کےمتعدد حملے ہوئے جس میں کئی افراد شدید زخمی ہوگئے۔
آئی جی سندھ مشتاق شاہ کے مطابق جرائم پیشہ افراد کو ہتھیار پھینکنے کے لئے 48گھنٹوں کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر مقررہ مدت میں ایسا نہیں ہوا تو آپریشن دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔
ادھر جمعہ کی شام کو ہی لیاری آپریشن کے اہم کردار عذیر بلوچ اچانک منظر عام پر آگئے۔ انہوں نے لیاری کے ایک اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے خطاب کے دوران انہوں نے گرفتاری پیش کرنے سے انکار کردیا، حالانکہ ایک روز قبل انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر علاقے کے لوگوں نے اجازت دی تو وہ اپنے آپ کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کردیں گے۔
پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران عذیر بلوچ نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ لیاری میں جرائم پیشہ افراد نہیں رہتے ۔ ان کا موقف تھا کہ لیاری کے معصوم عوام کے خلاف آپریشن ظلم ہے۔
اس دوران لی مارکیٹ میں نامعلوم شرپسندوں کی جانب سے مسافر بس پردستی بم حملے میں 2 افراد زخمی ہوگئے، جنہیں سول اسپتال منتقل کردیا گیا۔ اس حملے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔آئی جی سندھ مشتاق شاہ کا کہناہے کہ فیصلہ علاقے کی عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا۔
آج لیاری میں شرپسندوں کی جانب سےپولیس پر گیارہ راکٹ فائرکئے گئے جس میں سے ایک بکتر بند پر لگنے سے اس میں موجود دو پولیس اہلکارزخمی ہو گئے۔ شہریوں کی موجودگی اور گلیوں میں خندقیں کھدی ہونے کےباعث پولیس کو جوابی کارروائی اور پیش قدمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اس سے قبل جمعہ کی صبح چیل چوک پر پولیس اور شرپسندوں کے درمیان شدید جھڑپ کے بعد ضلع جنوبی کے 25 تھانوں سے نفری طلب کر لی گئی۔آج آپریشن میں نئی حکمت عملی اختیار کئے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا جس کے تحت ہیلی کاپٹرز اور رینجرز کی مدد لینے کی بھی باتیں کی جارہی تھیں۔