واشنگٹن —
میڈیا کی ایک بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ شمالی مالی میں فرانسیسی اور مالی فوج کی مدد سے اسلام پسند شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کو میڈیا کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔ اور اس علاقے میں صحافیوں کی نقل و حمل کو بھی بہت محدود رکھا گیا ہے۔ بعض مقامی اور بین الاقوامی صحافیوں کو مالی کے شمالی علاقوں میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے لیکن چند صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں تک جانا ابھی بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔
مالی کے حالات کی رپورٹنگ کرنے والے بہت سے صحافیوں، خاص طور پر دوسرے ممالک سے آئے ہوئے صحافیوں کو مالی کے شمالی علاقوں میں پہنچنے میں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہ بہت مشکلات کے بعد سیوئر تک پہنچ سکے۔ سیوئرایک طرح سے حدبندی ہے، اس جنوبی علاقے جو مالی حکومت کے قبضے میں ہے اور اس شمالی علاقے کے درمیان جو شدت پسندوں کے قبضے میں ہے۔
جب مالی میں جنوری میں اس لڑائی کا آغاز ہوا تو بقول صحافیوں کے انہیں کونا اورڈائی بیلے کے ان علاقوں تک رسائی نہیں دی گئی جہاں لڑائی شروع ہوئی تھی۔ اور فوج نے رکاوٹیں رکھ کر کئی دن تک صحافیوں کے لیے راستہ بند کر دیا تھا۔ اور جب صحافی بالآخر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو ان علاقوں میں بڑی تعداد میں فوجی موجود تھے اور مقامی افراد فوج کی موجودگی میں یہ بتانے سے گریزاں تھے کہ ان علاقوں میں کیا ہوا۔
صحافیوں کی ایک تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ، ’’میڈیا کے لیے رکاوٹ پیدا کرنے کا یہ عمل درست نہیں۔ فرانسیسی اور مالی عہدیداروں کو صحافیوں کو ان علاقوں میں رپورٹنگ کی آزادی دینی چاہیئے۔‘‘
کترینا ہوئے ایک صحافی ہیں جو اس وقت مالی میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزارت ِ اطلاعات سے تصدیق شدہ کاغذات ہونے کے باوجود بہت سے صحافیوں کو شمالی علاقوں کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ وہ کہتی ہیں، ’’ آپ زیادہ تر چوکیوں اور چیک پوائنٹس پر یہ دستاویز دکھا کر گزر جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی آپ شمالی علاقے کے پاس پہنچتے ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو وزارتِ اطلاعات سے خصوصی اجازت نامہ لینا ہوگا۔ ‘‘
کترینا کا کہنا تھا کہ وہ چند صحافیوں کے ساتھ ڈوینزا پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ علاقہ سیوئر کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مگر وہاں جا کر مالی فوجیوں کے کہنے پر انہیں واپس مڑنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر مالی فوجی صحافیوں کو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا صحافیوں کی اپنی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
یقینا اس وقت مالی میں حفاظت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یورپی اور امریکی صحافیوں کو اغوا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سڑکوں پر بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں۔ جمعرات کو چار مالی فوجی اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب ان کی گاڑی ایک ایسی ہی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی تھی۔
لیکن ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’’ان حالات میں یہ تعین صحافیوں اور ان کے اداروں نے کرنا ہے نہ کہ فوج نے، کہ وہ جنگ زدہ علاقے اور پرخطر حالات میں جا کر خبریں اکٹھی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘‘
کترینا ہوئے کہتی ہیں کہ شمالی مالی کے حالات کے بارے میں میڈیا پر بہت کم دکھایا جا رہا ہے، درحقیقت وہاں صورتحال بہت گھمبیر ہے۔ان کے الفاظ میں، ’’وہاں پر رپورٹنگ بہت محدود ہے۔ اگر وہاں زیادہ صحافیوں کو جانے کی اجازت ہو تو سامنے آنے والی صورتحال اس سے یکسر مختلف ہوگی جو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘
’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کا جنگ زدہ علاقے میں جا کر خبریں اکٹھی کرنا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ وہ مالی کی فوج اور اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں ان حقوق کی پامالی پر تفتیش کا مطالبہ کریں گے۔
نینسی پالس کی اس رپورٹ کی مزید تفصیلات مدیحہ انور کی زبانی۔
مالی کے حالات کی رپورٹنگ کرنے والے بہت سے صحافیوں، خاص طور پر دوسرے ممالک سے آئے ہوئے صحافیوں کو مالی کے شمالی علاقوں میں پہنچنے میں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہ بہت مشکلات کے بعد سیوئر تک پہنچ سکے۔ سیوئرایک طرح سے حدبندی ہے، اس جنوبی علاقے جو مالی حکومت کے قبضے میں ہے اور اس شمالی علاقے کے درمیان جو شدت پسندوں کے قبضے میں ہے۔
جب مالی میں جنوری میں اس لڑائی کا آغاز ہوا تو بقول صحافیوں کے انہیں کونا اورڈائی بیلے کے ان علاقوں تک رسائی نہیں دی گئی جہاں لڑائی شروع ہوئی تھی۔ اور فوج نے رکاوٹیں رکھ کر کئی دن تک صحافیوں کے لیے راستہ بند کر دیا تھا۔ اور جب صحافی بالآخر وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو ان علاقوں میں بڑی تعداد میں فوجی موجود تھے اور مقامی افراد فوج کی موجودگی میں یہ بتانے سے گریزاں تھے کہ ان علاقوں میں کیا ہوا۔
صحافیوں کی ایک تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ، ’’میڈیا کے لیے رکاوٹ پیدا کرنے کا یہ عمل درست نہیں۔ فرانسیسی اور مالی عہدیداروں کو صحافیوں کو ان علاقوں میں رپورٹنگ کی آزادی دینی چاہیئے۔‘‘
کترینا ہوئے ایک صحافی ہیں جو اس وقت مالی میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزارت ِ اطلاعات سے تصدیق شدہ کاغذات ہونے کے باوجود بہت سے صحافیوں کو شمالی علاقوں کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ وہ کہتی ہیں، ’’ آپ زیادہ تر چوکیوں اور چیک پوائنٹس پر یہ دستاویز دکھا کر گزر جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی آپ شمالی علاقے کے پاس پہنچتے ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو وزارتِ اطلاعات سے خصوصی اجازت نامہ لینا ہوگا۔ ‘‘
کترینا کا کہنا تھا کہ وہ چند صحافیوں کے ساتھ ڈوینزا پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ علاقہ سیوئر کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مگر وہاں جا کر مالی فوجیوں کے کہنے پر انہیں واپس مڑنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر مالی فوجی صحافیوں کو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا صحافیوں کی اپنی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
یقینا اس وقت مالی میں حفاظت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یورپی اور امریکی صحافیوں کو اغوا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سڑکوں پر بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں۔ جمعرات کو چار مالی فوجی اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب ان کی گاڑی ایک ایسی ہی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی تھی۔
لیکن ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’’ان حالات میں یہ تعین صحافیوں اور ان کے اداروں نے کرنا ہے نہ کہ فوج نے، کہ وہ جنگ زدہ علاقے اور پرخطر حالات میں جا کر خبریں اکٹھی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘‘
کترینا ہوئے کہتی ہیں کہ شمالی مالی کے حالات کے بارے میں میڈیا پر بہت کم دکھایا جا رہا ہے، درحقیقت وہاں صورتحال بہت گھمبیر ہے۔ان کے الفاظ میں، ’’وہاں پر رپورٹنگ بہت محدود ہے۔ اگر وہاں زیادہ صحافیوں کو جانے کی اجازت ہو تو سامنے آنے والی صورتحال اس سے یکسر مختلف ہوگی جو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘
’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کا جنگ زدہ علاقے میں جا کر خبریں اکٹھی کرنا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ وہ مالی کی فوج اور اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں ان حقوق کی پامالی پر تفتیش کا مطالبہ کریں گے۔
نینسی پالس کی اس رپورٹ کی مزید تفصیلات مدیحہ انور کی زبانی۔