پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اب بیماریاں بھی پھوٹ رہی ہیں جب کہ کئی علاقوں میں لوگ اب بھی امداد نہ ملنے کی شکایات کر رہے ہیں۔
سندھ کے بعد سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ بلوچستان کے کئی اضلاع زیرِ آب آنے سے صوبے کا باقی ملک سے رابطہ بھی منقطع ہو گیا تھا۔
سیلاب آنے کے کئی روز بعد بھی بلوچستان کے کئی اضؒلاع میں اب بھی پانی جمع ہے جس کی وجہ سے مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ مچھروں اور سانپ کے کاٹنے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں ملیریا پھیلنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے ہیضے سمیت پیٹ کی دیگر بیماریوں کے کیسز بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔
'بچے بیمار ہیں لیکن بخار کی دوا نہیں ہے'
بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں سڑک کنارے خیمے میں موجود فاطمہ بی بی کا خاندان بھی سیلاب کے باعث کئی مشکلات سے دوچار ہے۔ پانی سے بچ کر خیمے میں پناہ لینے والے اس خاندان کے بچے اب بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فاطمہ بی بی کا کہنا تھا کہ شدید گرم موسم اور خوراک کی قلت نے اُن کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے جب کہ مچھروں کی بہتات کی وجہ سے بچے ملیریا کا شکار ہو چکے ہیں اور بخار سے تپ رہے ہیں لیکن ان کے پاس دوا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد بار مقامی انتظامیہ کو بتایا کہ اس علاقے میں پانی کھڑا ہے اور مچھروں کی بہتات ہے اس لیے یہاں اسپرے کیا جائے مگر اب تک کوئی اسپرے نہیں ہوا۔ پورے علاقے میں بچے اوربڑے ملیریا کا شکار ہورہے ہیں راستے بند ہیں اور اسپتالوں تک رسائی نہیں ہے۔
دوسری جانب نصیر آباد ڈویژن کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں سانپوں کے ڈسنے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔
ڈیرہ اللہ یار کے محکمۂ صحت کے مطابق ڈیرہ اللہ یار، نصیر آباد اور صحبت پور سے روازنہ کی بنیاد پر سانپ ڈسنے کے آٹھ سے دس کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
سانپ کے ڈسنے سے زخمی ہونے والے شخص پناہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اپنے خیمے سے گھر کی جانب سامان اُٹھانے جا رہے تھے کہ راستے میں پانی میں موجود سانپ نے اُنہیں ڈس لیا ۔
محکمہ صحت بلوچستان کا مؤقف ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 20 فری میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے ہیں، جہاں ہیضے، جلدی امراض، ملیریا، سانس کے امراض اور سانپ ڈسنے سے بچاؤ کے لیے دوائیں اور ویکسین فراہم کی گئی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں فری میڈیکل کیمپس کے ذریعے ہزاروں افراد کا علاج کیا گیا ہے۔
اُاُنہوں نے دعویٰ کیا کہ تین جولائی سے اب تک محکمہ صحت نے دیگر این جی اوز اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر میڈیکل کیمپس میں چار لاکھ 28 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا۔
محکمہ تعلیم بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے 32 اضلاع میں اسکولوں کی عمارتوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے اور ان علاقوں میں تدریسی عمل بھی متاثرہوا ہے۔
محکمے کے مطابق صوبے میں سیلاب سے 574 اسکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جس سے 78 ہزار سے زائد طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب سے اب تک صوبے کے 32 اضلاع میں 299 افراد ہلاک جب کہ 181 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
صوبے میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور سیلاب سے اب تک 46 ہزار گھر مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں 2 ہزار کلومیٹر تک رابطہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ 22 پل تباہ ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب صوبائی حکومت نے گزشتہ دنوں اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں نقصانات کے ازالے کے لیے 200 ارب روپے درکار ہیں۔
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے ترجمان بلوچستان حکومت فرح عظیم شاہ سے فون پر مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم اُن کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔